سنہ 2005ء میں زلزلہ آیا تو پاکستان بھر سے خدمت خلق کے پروانے دیوانہ وار مشکل ترین راستوں کو عبور کرتے ، جہاں تک گاڑیوں سے رسائی ممکن ہوتی سفر جاری رہتا اور جہاں گاڑیاں ساتھ چلنے سے انکاری ہوجاتیں وہاں یہ محبان قوم و ملت قدموں کا سہارا لیتے اور سامان کو کندھوں پر ، گدھوں اور خچروں پر لاد کر دوردراز کے علاقوں میں پہنچ کر ریلیف اور خدمت کے کاموں میں مصروف ہوجاتے۔خدمت خلق میں ایسے تجربہ کار ہوئے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھی خدمت انسانیت سے پیچھے نہ ہٹ سکے ۔معین راہی کی غزل کا کیا خوب صورت مطلع ہے کہ
خاک کو کندن بنانا آگیا
وقت کی بھٹی میں تپنا آگیا
اورپھر آج جب بارشوں نے اپنا زور دکھایا ، بدلتے موسم نے عندیہ دیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر اس خطہ پر بھی شدید پڑے گا اور گزشتہ سارے ریکارڈ ایک طرح سے بارشوں اور سیلاب کے ٹوٹ جائیں گے تو یہی خدمت گار پھر سے میدان میں موجودہیں۔ میدان سیاست میں دو جماعتیں ایسی ہیں جنھوں نے خدمت کے میدان میں اپنا آپ منوایا ہے ایک جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن اور دوسری پاکستان مرکزی مسلم لیگ کی خدمت خلق ہے ۔گلگت بلتستان اورخیبرپختونخواہ کے علاقوں بونیر،باجوڑ، مینگورہ،شانگلہ اور دیگر علاقوں میں سیلاب اپنی تباہی کے ساتھ ساتھ بھاری پتھر بھی لے آیااور یہ پتھر اس قدر وزنی ہیں کہ بھاری مشینری سے ہی انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا ممکن ہے اور اب تک کی معلومات کے مطابق شاید یہ ابھی ممکن نہیں ہوسکا کیوں کہ راستوں کی بندش کے ساتھ ساتھ بارش کی گاہے گاہے آمد نے اسے مشکل بنادیاہے ۔ جب دیگرجماعتیں حتٰی کہ حکمران قیادت بھی جمع تفریق میں لگی ہوئی تھی یہ الخدمت فائونڈیشن (جماعت اسلامی )اور خدمت خلق (پاکستان مرکزی مسلم لیگ) والے اپنے اپنے علاقوں سے نکلے اور تباہ شدہ راستوں سے ہوتے ہوئے بونیر، باجوڑ، شانگلہ اور مینگورہ سمیت دیگر علاقوں میں جاپہنچے ۔
دامے درمے سخنے جو ہوسکا پہلے ہاتھ ساتھ لے گئے ، زخمیوں کو نکالااورمرہم لگایا، لاشوں کو نکالااور دفنایا،لواحقین کو سینے سے لگایا ، بھوکوں کو کھانا کھلایا اور پیاسوں کے لیے پانی کا بندوبست کیا۔ پھر جب ذرا وقت تھما تو محسوس ہوا کہ وسائل کم ہے اور مسائل زیادہ ہیں ۔پھر تو پاکستان بھر نے ریلیف کے کام میں اپنا آپ کھپا دیا۔راشن اس قدر پہنچا کہ خدمت میں مصروف تنظیموں کو کہنا پڑا کہ خوراک کی نہیں اب بھاری مشینری، خیموں اور ادویات کی ضرورت ہے تاکہ قیام کا عارضی بندوبست کیا جاسکے۔ پاکستان مرکزی مسلم لیگ اور جماعت اسلامی سمیت دیگر تنظیموں کی ماہر اور تجربہ کار میڈیکل ٹیموں نے میڈیکل کیمپ لگانے شروع کیے اور سیلابی صورتحال کے پیش نظر پھیلتی وبائوں پر قابو پانے کی کوشش کی۔ کراچی سے پاکستان مرکزی مسلم لیگ کی ٹیم فیصل ندیم اور ندیم اعوان کی معیت میں پہنچی اور خدمت میں جُت گئی اور ان کے خیبرپختونخواہ میں موجودگی کے وقت میں ہی کراچی میں بارش نے اپنا زور دکھا کر کراچی کو پانی میں ڈبو دیا لیکن یہ خدمت کے شیدائی اپنے گھروں کو پانی میں ڈوبا ہوا جان کر بھی ٹس سے مس نہ ہوئے ۔پاکستان بھر سے امدادی قافلے ابھی بھی جانب منزل رواں دواں ہیں کہ مسلمان کا شیوہ نہیں کہ اپنے بھائی کو تکلیف میں اکیلا چھوڑے۔صرف اہل فیصل آباد کی طرف سے ہی محمد احسن تارڑ جنرل سیکرٹری پاکستان مرکزی مسلم لیگ نے 1200سے زائد متاثرہ خاندانوں کے راشن پیک ، کپڑے،جوتے ، برتن اور ادویات وغیرہ تقسیم کی ہیں جب کہ اس سے قبل بھی فیصل آبادی ڈاکٹر ظفر اقبال چیمہ کی معیت میں خشک راشن جس میں چاول ، چینی ، اچار، دالیں ،چنے ، چائے ، گھی ، آٹا اور مچھردانیاں تقسیم کرچکے ہیں ۔ اسی طرح پاکستان مرکزی مسلم لیگ کی دیگر شہروں کی ٹیمیں بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ہمہ وقت مصروف ہیں ۔
ابھی اہل پاکستان کے پی کے میں آئی اس آفت سے نبرد آزما تھے کہ راوی، ستلج اور چناب بپھر چکے ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ ندی نالوں میں بھی جولانی لے آئے۔ شہراقبال مسلسل بارش کے باعث ڈوبا تو شہرسے گزرتے قدیمی نالوں میں پانی نے اپنا آپ اس طرح سے دکھایا کہ تادم تحریر سیالکوٹ سیلاب زدہ ہے ، شکرگڑھ ، نارووال ، وزیرآباف اور پسرور بھی سیلابی پانی میں بہہ گئے ہیں ۔ دیہاتوں کے دیہات پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور رہائشی گھروں میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ ریسکیو1122، پولیس اور دیگر حکومتی ادارے بھی اپنے اقدامات میں مصروف ہیں اور مرکزی مسلم لیگ کے رضاکار بھی ان اداروں کے ساتھ مل کر خدمت میں مصروف ہیں۔ دریائے چناب میں تاریخ کا بلند ترین سیلاب ہے جو اپنے ساتھ بے شمار مصائب ومشکلات بھی لارہا ہے۔ بارشوں کے لمبے دورانیے نے ایک مشکل صورت حال پیدا کی ہوئی تھی اور اس صورتحال میںبھارتی آبی جارحیت نے مزید تباہی مچائی۔اس پانی کی غیر متوقع اور بے پناہ مقدار نے فصلوں کو تباہ کر دیا اور ہزاروں خاندانوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کر دیاہے۔
یہ سیلاب ہمارے لیے ایک سنگین سبق ہے اگر ہم سمجھ سکیں کہ ہمیں آئندہ اس طرح کی آفات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ماہرین ماحولیات کے مطابق ڈیمز کی تعمیر، پانی کے ذخائر میں اضافہ اور دریااؤں کے اطراف میں مضبوط حفاظتی دیواریں بنانا ضروری ہے ۔اس کے ساتھ ہی جدیدearly warning systemکا قیام بھی ناگزیر ہے تاکہ عوام کو وقت پر آگاہ کیا جا سکے کیوں کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث یہ سیلاب اور اسی جیسی دیگر آفات اب کئی سال تک ہمارے ساتھ رہیں گی۔ حکومت کو چاہیے کہ موسمیاتی تبدیلی پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات کو ہنگامی بنیادوں پر پورا کرے تاکہ پاکستان ان قدرتی آفات سے کم سے کم متاثر ہو۔