اوپر والی تصویر میں ایک طرف میرے ماموں انور علی (ائیر فورس ریٹائرڈ) ہیں۔ دوسری طرف انکا صاحبزادہ میرا ماموں ذاد معظم علی ہے۔ معظم علی مجھ سے چار سال بڑا ہے۔ ماموں جی اپنی سروس کے آخری سالوں میں کراچی تھے تو ڈاکٹروں نے کہا آپکا اکلوتا بیٹا مائلڈ لیول کا ذہنی معذور ہے۔ اسکا آئی کیو 50 سے 70 کے درمیان ہے۔ زبان میں بھی شدید لکنت تھی۔ جسے آپ ہکلانہ کہتے ہیں۔ ایورج آئی کیو 90 سے 120 ہوتا ہے۔ ماہرین نے بتایا معظم علی نارمل بچوں کے سکول نہیں پڑھ سکے گا۔ زرا سوچ کے دیکھیں کسی کی کل کائنات ایک بیٹا ہو اور وہ بھی ذہنی معذور تو والدین پر کیا گزرے گی؟ مامی نے اتنی ٹینشن لی کہ دائمی تیز فشار خون و شوگر کی جوانی میں مریضہ بن گئیں۔ رشتہ داروں میں کیا کہا جائے گا کہ میرا بچہ پاگل ہے۔ یہی تو دیہاتوں میں کہا جاتا ہے۔ اور سپیشل بچے کو والدین کے ہی ماضی کے برے اعمال کی سزا سمجھا جاتا ہے۔
ماموں جی فوجی تھی۔۔ اعصابی طور پر ایک مضبوط شخص تھے۔ ماموں کہتے ہیں خطیب احمد بیٹا میں نے سب سے پہلا جو کام کیا۔ اس سچائی کو قبول کر لیا۔ اور کراچی کے ایک سپیشل ایجوکیشن سکول میں سنہ 1992 میں معظم علی کو 7 سال کی عمر میں داخل کرا دیا۔ جہاں سپیچ تھراپی اور تعلیم شروع ہو گئی۔ ماموں کہتے ہیں میں معظم کو خود انگلش اور اردو کے حروف تہجی پڑھاتا تھا۔ 92 کے سال پاکستان نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا تھا۔ سارے ملک میں جشن تھا کراچی اس رات کو پہلے سے بھی روشن ہو چکا تھا۔ اور ہمارے جیسے ساری خوشیاں ختم ہو چکی تھیں۔ میں نے معظم کو لیا اور ساحل سمندر پر ہم باپ بیٹا چلے گئے۔ ہم نے خوب موج مستی کی۔ ماموں کہتے میں نے بیٹے کی معذوری کو اپنی زندگی جینے کا مقصد بنا لیا۔ مجھے اب باقی زندگی مختلف طریقے سے جینا تھی۔ جس کے لیے میں خود کو تیار کر چکا تھا۔
1994 میں ماموں ریٹائر ہوئے۔ 280 ہزار روپے پنشن و گریجویٹی کے ملے۔ اب ماموں کی نظر میں بیٹے کی تعلیم تھی۔ اپنے آبائی شہر حافظ آباد آئے سپیشل بچوں کے سکول کا پتا کیا۔ کوئی نہیں تھا یہ تو اس وقت ضلع بھی نہیں تھا گوجرانولہ کی تحصیل تھی۔ گوجرانولہ گئے گل روڑ پر ایک ادارہ تھا جس سے ماموں مطمئن نہ ہوئے۔ لاہور گئے اور لاہور میں موجود ادارے وزٹ کیے جن کی حالت کچھ قابل قبول تھی۔ ماموں جی نے نشاط کالونی آر اے بازار میں 5 مرلہ کا پلاٹ لیا اور لاہور بچے کی تعلیم و تربیت کے لیے شفٹ ہوگئے۔ میری مامی گاؤں رہنا چاہتی تھیں مگر ماموں کے ذہن میں کچھ اور تھا انہوں نے اپنی مرضی کی۔
معظم کچھ سکولوں سے ہوتا ہوا ڈاکٹر عبدالتواب مرحوم اور ان کی اہلیہ کے گھر میں شروع کیے گئے سپیشل بچوں کے سکول رائزنگ سن ڈیفنس سکول لاہور داخل ہوگیا۔ تب تک معظم کافی بہتر ہوچکا تھا۔ کئی سال کی سپیچ تھراپی معظم کی زبان کی لکنت قدرے کم کر چکی تھی۔ رویے میں قدرے بہتری آچکی تھی۔ لرننگ کا موڈ بن چکا تھا۔ عمر 15 سال ہوچکی تھی جب معظم رائزنگ سن میں داخل ہوا۔ ماموں کہتے ہیں اس سکول میں ایک بڑی پیاری سی گوری چٹی ٹیچر تھی معظم نے ضد کی کہ وہ پڑھے گا تو اسی ٹیچر سے ورنہ پرانے سکول چھوڑ آئیں۔۔معظم کی بات سکول انتظامیہ نے مان لی۔ اس بہن کا میں نے پتا کرنا ہے جس نے میرے بھائی کو لکھنا پڑھنا سکھایا۔ ماموں کہتے اس ٹیچر سے اس کا انٹریکشن بہت اچھا ہو گیا۔ وہ ایک انتہائی محنتی ٹیچر تھی۔ اس کا میں نے شکریہ ادا کرنا ہے۔۔ اسے بتانا کہ دیکھیں آپ کی محنت کا رنگ اللہ نے کیسا چڑھایا ہے معظم پر۔ اور اس کے سکول بھی جا کر انتظامیہ کو معظم سے ملوانا ہے۔
معظم نے اس ٹیچر سے الحمدللہ اردو انگلش پڑھنا اور لکھنا سیکھا۔ بنیادی حساب سیکھا۔ صاف رہنا سیکھا۔ نماز سیکھی۔ بڑوں کا ادب سیکھا۔ اپنے کام خود کرنا سیکھا۔ معظم اپنے سب کاموں میں آزاد صرف چھ ماہ میں ہوگیا۔ اس خدا کی بندی نے معظم کو بازار سے سودا سلف خریدنا سکھایا۔ معظم دوکان سے سبزی سودا سلف دودھ تندور سے روٹی لانے لگا۔ فلٹر سے پانی بھر کے لانے لگا۔ معظم کو گانے کا بہت شوق تھا۔ ماموں مولوی تھے تو اسکا یہ شوق گھریلو مذہبی رجحان کی وجہ سے پورا نہ ہو سکا۔ آج بھی معظم کو کئی گانے پورے پورے یاد ہیں۔ کبھی ویڈیو ریکارڈ کروں گا۔
معظم کو سپیشل کوٹے پر سیفائر کپڑے کی فیکٹری میں اوور لاک مشین پر ملازمت بھی ملی تھی۔ تین ماہ گیا ماشاءاللہ بہت اچھا کام کرتا تھا۔ نظر کافی کمزور ہونے کی وجہ سے وہ جاب نہ کر سکا۔ اور چھوڑ دی جاب۔
آج الحمدللہ معظم علی اپنے سب کام خود کر لیتا ہے۔ اپنے ماموں کی سبزی کریانہ کی دوکان پر ملازمت کرتا ہے۔ گھر کے سب کام کرتا ہے۔ اردو انگلش ماشاءاللہ لکھ اور پڑھ لیتا ہے۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اسے اچھی طرح تعارف ہے۔ اہل بیت کا پتہ ہے۔ بنیادی جنرل نالج بھی ہے۔ سارے خاندان کے بچے بچے کا نام پتا ہے۔
میں معظم سے ایک بار کہا آئی لو یو یار۔ تو وہ مجھے کہنے لگا یار توں میری ورگے بالاں نوں پڑھان آلی ڈگری جو کیتی اے۔تینوں پتا اے میں سپیشل بچہ واں، تاں توں میرے نال بڑا پیار کرنا ایں۔ جنہاں نوں میرا نئیں پتا اوہ مینوں پاگل کملا رملا شیدائی کہندے نیں۔ مینوں وٹے ماردے نیں۔ مینوں چھیڑدے نیں۔ میرے ابو نوں پتا سی تاں مینوں لہور لے آئے سی۔ میں پنڈ ہندا تے واقعی پاگل ہو چکیا ہندا۔ اس کی یہ بات سن کر میری آنکھیں نم ہوگئیں۔ اسکا ماتھا چوما اور گلے لگا لیا۔
نیچے والی تصویر میں معظم جیسا ہی ایک لڑکا ہے۔ میرے گاؤں کے پاس رہتا ہے۔ سارا گاؤں اسے سائیں کہتا ہے۔ جو کبھی سکول نہیں گیا۔ گھر والے صبح گھر سے نکال دیتے ہیں۔ شام کو واپس آجاتا ہے۔ اسے میں نے کبھی شلوار پہنے نہیں دیکھا کیونکہ ٹائلٹ ٹرینڈ نہیں ہے تو گھر والے شلوار پہناتے ہی نہیں۔ ایسا ایک آدھ سائیں آپکے گاؤں محلے شہر میں بھی ہوگا؟ جسے بچے پتھر مارتے ہونگے۔ اسے چھیڑ کر اس سے گالیاں لیتے ہونگے؟ بڑے بھی اس سے ٹھٹھہ کرتے ہونگے؟ اسے تنگ کرتے ہونگے؟ شاید آپ بھی ایسا کرتے ہونگے؟ پلیز ایسا نہ کریں۔ نہ کسی کو کرنے دیں۔
اپنے آس پاس کوئی چھوٹا بچہ دیکھیں تو اسے سکول داخل کروانے میں والدین کی مدد کریں۔ والدین کو گائیڈ کریں کہ سکول جانے کے بعد آپکا معظم علی طرح ہوسکتا ہے اور نہ جا کر گلی محلوں میں آوارہ پھرتا آگے جا کر سائیں آپکا بچہ ہو سکتا ہے۔
پنجاب کے ہر ضلع ہر تحصیل ہر ٹاؤن میں الحمدللہ سرکاری سپیشل ایجوکیشن سکول ہیں۔ آپ ہماری ہیلپ لائن 1162 پر کال کرکے ہمارے تمام اداروں کی معلومات لے سکتے ہیں۔ مجھے پوچھ سکتے ہیں ایک میسج کال کی دوری پر ہوں۔ پورے پنجاب کے سب سکولوں کا مجھے پتا ہے۔ بلکل فری تعلیم ہے۔ آئیں ہم سب مل کر عہد کریں اگلی پیڑھی میں ہم ملک پاکستان میں انشاء اللہ کسی کو گلی محلوں میں لوگوں کے تماشے کا سامان بننے والا سائیں نہیں بننے دیں گے۔
معظم علی کو ایسا معظم بنانے میں میرے ماموں جی نے ایک ہیرو کا کردار ادا کیا ہے۔ ایسے گمنام ہیروز کو ضرور ٹرائی بیوٹ پیش کیا جانا چاہیے۔ میری کوشش ہے لاہور میں ایک اچھا پروگرام ارینج کروں۔ جس کے چیف گیسٹ میرے ماموں اور ان کا صاحب زادہ ہو۔ ان کی اس 32 سالہ بے لوث سروس پر انہیں سلام پیش کیا جائے۔ وہ اپنے تجربات سب سے شئیر کریں۔ سپیشل بچوں کے والدین کو یقینا میرے ماموں جان بہت آسانی دے سکتے ہیں۔ ماموں جی آپ کا بھانجا ہونے پر مجھے فخر ہے۔ معظم یار تم نے مجھے ہمیشہ موٹی ویشن دی ہے۔ تمہاری وجہ سے ہاں صرف تمہاری وجہ سے میں سرکاری سکول کا ماسٹر ہو کر بھی روایتی ماسٹر نہیں ہوں۔ نہ ہی کبھی بن سکوں گا۔ جیو میرے شہزادے بہت خوشیاں مانو۔