21 فروری: مادری زبانوں کا عالمی دن اور سرائیکی کا درخشاں مستقبل
تحقیق و تحریر: ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی
altafkhandahir@gmail.com
21 فروری کو "مادری زبانوں کے عالمی دن” کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن کا مقصد دنیا بھر میں مختلف زبانوں کی اہمیت،افادیت اور تحفظ کے بارے میں آگاہی بڑھانا ہے۔خاص طور پر دنیا کی ان کی کمزور زبانوں کے وجود کی حفاظت کرنا ہے،جوخطرے میں ہیں۔اس دن کی بنیاد 1999ء میں اقوام متحدہ کے عالمی ادارے یونیسکو (UNESCO) نے رکھی تھی۔تاکہ زبانوں کی تنوع،علم وادب،عرفان وحکمت،روحانیت اور ثقافتی ورثے کی حفاظت کی جاسکے۔ماہرین لسانیات کے مطابق مادری زبان ایک فرد کی وہ زبان ہوتی ہے،جسے اس نے بچپن میں اپنے والدین یا قریبی لوگوں سے سیکھا ہو۔اور جو اُس کی روح، ثقافت،وجدان،شعور،تہذیب وتمدن اور شناخت کا لازمی حصہ ہوتی ہے۔مادری زبان کا تحفظ اس بات کی ضمانت ہے کہ قدیم انسانی نسل در نسل والدین کی دانش،اعلی اخلاق،تعلیم وتربیت،رسوم رواج،ادب،ثقافتی ورثہ اور تاریخ محفوظ رہیں گے۔

21 فروری کو اس دن کا تعین اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ 1952 میں بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) کے دارالحکومت ڈھاکہ میں حکومت کے ذریعے بنگالی زبان کو سرکاری زبان کے طور پر تسلیم نہ کیے جانے پر طلباء نے احتجاج کیا تھا۔جس میں پولیس کی فائرنگ سے کئی افراد شہید ہوگئے تھے۔اس واقعے کی یاد میں 21 فروری کو مادری زبان کا عالمی دن منانے کی شروعات ہوئی۔اس دن کا مرکزی مقصد مادری زبانوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔کلچر اگر ایک جسم ہے تو اس کی روح روشنی زبان ہی ہوتی ہے۔ماں کا احترام دنیا کے ہر مذہب کا خوبصورت فلسفہ ہے۔انسانوں کی مختلف زبانیں،ثقافتیں اور روایات خوبصورت رنگ برنگے پھولوں کی مانند ہیں۔جس سے آپس میں اتحاد ویکجہتی اور محبت و خلوص کی خوشبو مہکتی ہے۔

کائنات کے خالق حقیقی رب العزت جلال کریم نے انسانوں کی ہدایت کے لیے عملی مثالی کردار والے ہر عہد میں برگزیدہ انبیاء کرام علیہم السلام اجمعین کو ان کی مادری زبانوں میں تبلیغ کی اجازت فرمائی۔انسان میں اعلی ترین ذریعہ ابلاغ زبان ہے۔مادری زبان بہترین و آسان ترین کلیہ ہدایت وتربیت ہے۔بلاشبہ زبان کسی بھی انسان کی ذات اور شناخت کا اہم ترین جزو ہے اسی لیے اسے بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا جاتا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریباً ساڑھے چھ ہزار سے 7ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں۔پاکستانی ماہرینِ لسانیات کے مطابق ملک بھر میں مختلف لہجوں کے فرق سے 74 زبانیں بولی جاتی ہیں۔

سال2010ء کی ہایئر ایجوکیشن کمیشن رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سب سے بڑی زبان سرائیکی کو مانا گیا ہے۔لفط سرائیکی سرسوتی سے نکلا ہے۔علم آثارقدیمہ ریسرچ مطابق موجودہ روہی چولستان کا ایک گمشدہ شہر گنویری والا دریائے ہاکڑہ سرسوتی تہذیب و تمدن کا تقریبا آٹھ ہزار سال قدیم تاریخی شہر ہے۔سرائیکی زبان کی ادبی روایت کئی صدیوں پر محیط ہے۔ حضرت بہاالدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی رحمۃاللہ علیہ کی سرائیکی شاعری دراصل کلاسک سرائیکی مادری زبان کی شناخت و عظمت کی گواہی ہے۔سرائیکی مہان کلاسک شاعر حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ سرائیکی زبان کا لازوال عروج ہے۔”میں تے یار فرید منیسوں رل مل شہر بھنبھور” سرائیکی خطے کے قدیم ہزار سالہ ادبی و ثقافتی دستاویز ہے۔لیکن صد افسوس کہ آج تک اس زبان کو وہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہو سکا ۔جو اس کا اولین حق تھا۔یہ ادبی اعتبار سے کسی بھی دوسری زبان سے پیچھے نہیں ہے۔اس میں ہمارے مذہب اسلام،دین،فقہ،علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کا بیش قیمت سرمایہ موجود ہے۔

پاکستان کے ہر صوبے اور ہرضلع میں سرائیکی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔انڈیا میں کثیر تعداد میں سرائیکی زبان بولنے افراد رہتے ہیں۔سرائیکی زبان اب عالمی شہرت یافتہ زبان کا اعزاز حاصل کرچکی ہے۔سرائیکی وسیب میں ہر حملہ آور نے اس کے زرخیز خطے پر قبضہ کرنے کے لیے مقامی لوگوں کی زبان اور ثقافت پر شدید حملہ کیا۔مگر دھرتی واسیوں نے مکمل اعتماد و یقین سے ان کے عزائم خاک میں ملا دئیے۔سرائیکی علاقہ محبت و احترام آدمیت اور تصوف سے مالا مال ہے۔سرائیکی آکھان جو "مٹھاس تے وفا دا ڈوجھا ناں سرائیکی ہے”۔سندھ میں جس کو سرائیکی نہیں آتی اس کو ڈھگو کہا جاتا ہے۔

انگریز نے فاتحانِ عالم کی طرح ہمت اور بہادری کے ساتھ برصغیر کو فتح نہیں کیا۔بلکہ تاجروں کا بھیس بدل کر روٹی کی بھیک مانگتے ہوئے بھارت میں آیا اور مغلیہ حکمرانوں کے سامنے دامن پھیلا کر تجارتی سہولیات حاصل کیں۔لیکن موقع ملتے ہی لٹیروں اور ڈاکوؤں کی طرح اپنے ہی محسنوں کے گھر پرقبضہ کر لیا۔انگریزنے قدم جمانے کے بعد مقامی زبانوں کو نظر انداز کر دیا۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی قوم کو مٹانا ہو تو اس کی زبان مٹا دو‘‘ تو قوم کی روایات، تہذیب، ثقافت، تاریخ اور اس کی قومیت غرض سب کچھ مٹ جائے گا۔

مادری زبان انسان کی شناخت، ابلاغ، تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے۔لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اس کے ساتھ تہذیب و تمدن اور ثقافت کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔اسی لئے دنیا بھر میں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیے جانے کا انتظام ہوتا ہے۔کیونکہ بچے کے ذہن میں راسخ الفاظ اس کے اور نظام تعلیم کے درمیان ایک آسان اور زود اثر تفہیم کا تعلق پیدا کر دیتے ہیں۔لیکن انگریزوں نے سرائیکی وسیب میں رائج نظامِ تعلیم کو ختم کرتے ہوئے پرائمری تک تعلیم کے لیے مقامی زبانوں سرائیکی،بلوچی،پنجابی،سندھی،پشتو، بلتی،گلگتی وغیرہ کی جگہ اردو زبان کو لازمی قرار دیا۔جبکہ فارسی کی جگہ انگریزی سرکاری زبان بنا دی گئی۔ انگریزی بولنے اور پڑھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ کہلانے لگے۔جب کہ مقامی مادری زبانوں سے محبت کرنے والے مہذب اہل علم جاہل،جانگلی،ان پڑھ اور گنوار کہلانے لگے۔

مادری زبان انسان میں احساس عزت و توقیر،غیرت، اخلاقی اقدار، سلیقہ،وفا، دلیری، ثقافت و تہذیب وتمدن اور وطن عزیز سے بے پناہ عقیدت پیدا کرتی ہے۔مگر انگریز نے غلامی کا وار اس انداز میں کیا کہ مسلمانوں کا صدیوں سے رائج نصاب بے وقعت ہو گیا۔ایک طرف مسلمان معاشی و سماجی طور پر دلد ل میں پھنستے چلے گئے تو دوسری طرف تعلیمی میدان میں انگریزی زبان کے فروغ کا زور و شور ان کو لے ڈوبا۔علم و عمل کی بنیاد پر برصغیر پر ہزار سال حکومت کرنے والی مسلم قوم کو ایک دم جاہل گنوار بنا کر رکھ دیا گیا۔انگریز کی اس کاری ضرب کی وجہ سے مسلمان اندھیروں میں ڈوبتے چلے گئے۔

سرائیکی دھرتی کے عظیم ہیرو احمد خان کھرل شہید اور نواب مظفر خان شہید کو ڈاکو اور لٹیرے بنا کر پیش کیا گیا۔اِس طرح سرائیکی وسیب کی نئی نسل اپنی ہی مادری زبان اور ثقافت پر نازاں ہونے کی بجائے شرمندگی محسوس کرنے لگے۔انگریز نے ملتان پر قبضہ کیا۔ ملتان جو ہزاروں سال پرانی سرائیکی ریت وثقافت اور شناخت کا مرکز رہا۔جس کی گواہی آج کے ضرب المثل ہیں۔جو صدیوں سے سینہ بہ سینہ سرائیکی قوم میں منتقل ہورہے ہیں۔جئیں نہ ڈٹھا ملتان نہ او ہندو نہ او مسلمان”۔آگرہ اگر دلی مگر ملتان سب کا پدر”۔ناجائز قبضہ گیری نے یہاں کے لوگوں کو احساس کمتری میں مبتلا کردیا اور انگریزی و اردو زبان کو اتنا اونچا درجہ دے دیا گ،عوام دیسی زبانیں بولنے میں شرمندگی محسوس کرنے لگے۔

مگر آج بھی نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد بھی ہرشعبہ ہائے زندگی میں انگریزی کو ہی اہمیت دی جا رہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی ایک ترقی یافتہ اور جدید سائنسی علوم کے ذخیرے سے مالا مال زبان ہے۔لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کی کسی بھی قوم نے اپنی زبان اور روایات چھوڑ کر کسی غیر کی زبان اور تہذیب و تمدن کو اپنا کر کبھی ترقی نہیں کی۔کیونکہ مادری زبان انسان کی شناخت، ابلاغ، تصوف،تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے۔لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اسکے ساتھ ثقافتوں اور روایات کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔جس سوسائٹی میں دانشور اپنی دھرتی کے ساتھ جُڑے رہتے ہیں اور ان کا تعلق اپنی مٹی کے ساتھ مضبوط ہوتا ہے تو ان ممالک کی عوام اپنی ثقافت،زبان اور اپنی تاریخ پر فخر کرتی ہیں۔لہٰذا ہمیں ہر صورت اپنی ماں بولی کا بغیر کسی تعصب کے ضرورتحفظ کرنا چاہیے۔

حکومتِ وقت مادری و علاقائی اور قومی زبانوں کے ادباء و شعراء اور محققین کی سرپرستی کرے۔ان کی تخلیقات کو سرکاری سطح پر شائع کیا جائے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر عالمی زبانوں کی کتب کو قومی و علاقائی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے۔تاکہ ہماری قوم اندھیروں سے نکل کر وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنا آپ منوا سکے۔سرائیکی مادری زبان کا مستقبل روشن ہے کہ پاکستان میں مقامی زبانوں میں سب سے زیادہ کتابیں سرائیکی میں شائع ہورہی ہیں۔الحمداللہ 2011ء سے سرائیکی زبان کالجز سطح پر نصاب کا حصہ ہے۔یونیورسٹیوں میں سندھی،بلوچی،پنجابی
،پشتون زبانوں میں اے ڈی پی،بی ایس،ایم فِل اور پی ایچ ڈی پروگرامز کی طرح اب سرائیکی میں بھی یونیورسٹی سطح پر اعلی تعلیم وتربیت دی جاری ہے۔سرائیکی مضمون فرسٹ ائیر کے پہلے سٹوڈنٹس راقم الحروف کے بہاولنگر کالج کے ہی تھے۔اب پرائمری و مڈل اور میٹرک میں سرائیکی نصاب سازی کا خواب حقیقت رواں دواں ہے۔تاہم ان ڈگریوں کی معاشی اہمیت و افادیت کو محدود سمجھا جارہاہے۔ کیونکہ ماں بولی کے احترام کے سوا عملاً کچھ نہیں ملتا۔میرے نزدیک جو قوم آپنی ماں بولی،والدین اور وطن عزیز کی ہمیشہ خیر و سلامتی اور خوشحالی کے لیے عملی اقدامات کرتی رہے گی۔وہ قوم ہمیشہ عزت و وقار سے جیتی رہے گی۔ورنہ خود کسی غلام ہوکر خاک میں مل خاک بن صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔

سرائیکی زبان وادب کی آبیاری کے لیے جدید کلاسک شعراء کرام میں رفعت عباس،عاشق بزدار،جہانگیر مخلص،عزیز شاہد،ثاقب قریشی،شاہد عالم شاہد،سلیم صابر اورشاکر شجاع آبادی جیسے عظیم شاعر اہم کردار ادا کررہے ہیں۔نوجوان طبقہ اپنی زبان و ثقافت کے فروغ کیلئے عملی جدوجہد کررہے ہیں۔یہ اشارے شاندار مستقبل کی روشن دلیل ہیں۔ہر انسان اور ہر مادری زبان کا تحفظ ہم سب انسانوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔سرائیکی زبان کو فوری دیگر زبانوں کی طرح پی ایس سی،سی ایس ایس امتحانات میں شامل کیا جائے۔سکولوں میں فوری سرائیکی سیٹوں کا اشتہار دیا جائے۔سرائیکی خطے میں سرائیکی بنک اور سرائیکی یونیورسٹی کے قیام سے مقامی سرائیکی مادری زبان بولنے والا کا اعتماد بلند ہوگا۔معاشی ترقی کا نیا پہیہ چلے گا۔اردو بھی عملاً سرکاری زبان نہیں اور اسے بھی انگریزی کی ضرورت کے سبب علاقائی زبانوں کے خیمے میں پناہ لینی پڑ گئی ہے۔

حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ ابتدائی کلاسز میں مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنائے۔پارلیمنٹ و نادرا میں بھی سندھی زبان کی طرح قومی شناختی کارڈ بھی سرائیکی میں جاری کیے جائیں۔سرائیکی وسیب کی ہر یونیورسٹی میں سرائیکی شعبے لازمی قائم ہوں۔دنیا کے کئی ممالک نے مادری زبانوں کی ضرورت و اہمیت کو مانتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ ہر بچے کو اپنی مادری زبان میں تعلیم کا حق حاصل ہے اور تمام زبانوں کی بلا امتیاز ترویج و ترقی شہریوں کے بنیادی حقوق اور ریاستی فرائض کا حصہ ہے۔لیکن پاکستان میں آج بھی علاقائی زبانوں کی اہمیت اور مقام و مرتبے پر بحث جاری ہے۔سندھ میں سندھی کی طرح سرائیکی زبان کو شامل کیاجائے،خیبر پختونخوا میں پشتو کی طرح ڈیرہ اسماعیل خان گومل یونیورسٹی میں سرائیکی زبان کے شعبے کو ہزارہ ڈویژن میں سرائیکی کو شروع کیا جائےاور بلوچستان میں بلوچی ابتدائی تعلیمی درجات میں پڑھائی کے ساتھ سرائیکی زبان بھی شامل کی جائے۔

حکومت پنجاب ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ،پنجاب کری کولم ٹکسٹ بک بورڈ لاہور نے سرائیکی گیارہویں جماعت کی کتاب چھاپ کر سرائیکی مادری زبان کی ترویج کو تاریخی اہمیت دی ہے۔اس سے آپس میں مقامی سطح پر ثقافتی ورثے کو محفوظ فروغ ملے گا۔مادری زبان میں تعلیم سے بچے بہت جلد نئی باتوں کو سمجھ جاتے ہیں اور اس سے بچوں کی تعلیمی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔جس سے زبان کی آبیاری ہوتی ہے۔اس کے برعکس جن اقوام کا اپنی ہی مٹی سے تعلق کمزور ہو جاتا ہے۔شکست اور ذلت و پستی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ پرائمری سے تمام صوبوں میں مقامی زبانوں کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے۔مادری زبان انسان کی پہلی زبان ہی نہیں بلکہ پہلی ابتدائی درسگاہ،ثقافت، شناخت،تاریخ اور تعلقات کی بنیادی جڑ ہے۔

مادری زبان کی اہمیت کا ادراک انسانی ترقی،معاشرتی ہم آہنگی اور عالمی سطح پر اثرات کے حوالے سے بے حد ضروری ہے۔مادری زبان انسان کی پہچان اور کلچرل تنوع کی علامت ہے۔ایک شخص کی مادری زبان اس کی نسلی علم ودانش،ثقافتی اقدار اور جغرافیائی تاریخ کو ظاہر کرتی ہے۔اس زبان کے ذریعے فرد اپنی تہذیب وتمدن،کلچر،فہیم،ادب،روایات اور رسوم و رواج کو زندہ رکھتا ہے اور اپنے آباؤ اجداد کے تجربات کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرتا ہے۔جب انسان اپنی مادری زبان میں بات کرتا ہے، تو وہ اپنے آپ کو زیادہ قدرتی اور حقیقی انداز میں اظہار خیال کرتا ہے۔مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنا طالب علم کے لئے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔جب بچوں کو اپنی مادری زبان میں پڑھایا جاتا ہے، تو ان کی تفہیمی صلاحیت اور سیکھنے کی رفتار بہتر ہوتی ہے۔ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے زیادہ خود اعتماد، دلیر،وفادار، تخلیقی اور سیکھنے میں فعال ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے بچوں میں نئے تصورات،فنون لطیفہ،خیالات اور مہارتوں کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد فراہم ہوتی ہے۔

سماجی اور ثقافتی روابط ہمیشہ مادری زبان سے ہی مضبوط ہوتےہیں۔افراد کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے اور ان کے درمیان بہتر سماجی تعلقات قائم کرتی ہے۔ یہ زبان افراد کو اپنے خاندان، دوستوں اور کمیونٹی کے ساتھ جڑنے کا ایک قدرتی طریقہ فراہم کرتی ہے۔مادری زبان میں گفتگو کرتے وقت لوگ زیادہ آرام دہ اور اعتماد محسوس کرتے ہیں۔جس سے معاشرتی ہم آہنگی اور تعاون بڑھتا ہے۔ مادری زبان انسان کی جذباتی اور نفسیاتی حالت پر بھی گہرا اثر ڈالتی ہے۔جب انسان اپنی مادری زبان میں بات کرتا ہے تو وہ اپنے خیالات اور جذبات کو زیادہ بہتر انداز میں ظاہر کر سکتا ہے۔مادری زبان میں انسان زیادہ کھل کر اپنی باتوں کو شیئر کرتا ہے،جو اس کے ذہنی سکون اور جذباتی خوشی کے لیے ضروری ہے۔

فطرت کا دوسرا خوبصورت نظارہ مادری زبان ہے۔اگر ایک زبان ختم ہو جاتی ہے تو اس کے ساتھ اس زبان میں چھپی سماجی و ثقافتی معلومات،ادب،حکمت ودانش،روایات اور علم بھی ضائع ہو جاتا ہے۔مادری زبانوں کا تحفظ اور ترقی عالمی سطح پر انسانوں کی متنوع شناخت اور ثقافتوں کے احترام کی علامت ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر دنیا میں مختلف زبانوں کا ہونے کے باوجود مادری زبانوں کی اہمیت کو تسلیم کیا جانا عالمی تعلقات اور تعاون کو فروغ دیتا ہے۔عالمی تنظیمیں اور ادارے مادری زبانوں کے تحفظ اور فروغ کے لئے سرگرم ہیں۔

مادری زبان نہ صرف ایک زبان ہے بلکہ یہ ایک فرد کی ثقافتی شناخت، تعلیمی ترقی،جذباتی سکون،روحانی وابستگی اور عالمی سطح پر تعلقات کو مستحکم کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس کی اہمیت کو سمجھنا اور اس کی قدر کرنا ہماری ذمہ داری ہے تاکہ ہم اپنی نسلوں کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کر سکیں۔مادری زبان کا تحفظ اور اس کا فروغ ایک روشن اور ہم آہنگ دنیا کی تشکیل میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔مادری زبان میں ہی انسان مکمل طور اپنے دکھ سکھ کا قصہ بیان کرتاہے۔سرائیکی کلاسک شاعر حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ نے کیا خوب تخیل تخلیق کیا ہے۔
کیا حال سنڑاواں دل دا
کوئی محرم راز نہ ملدا

سرائیکی ماں بولی سرائیکی ماں بولی
سبھ توں مٹھی سبھ توں چسولی۔

Shares: