ہانگ کانگ میں عالمی ثالثی تنظیم کا قیام اور پاکستان کا کردار

2 دن قبل

ہانگ کانگ میں عالمی ثالثی تنظیم کا قیام اور پاکستان کا کردار
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
30 مئی 2025 کو پاکستان نے ہانگ کانگ میں قائم ہونے والی عالمی ثالثی تنظیم (International Organization for Mediation – IOMed) کے کنونشن پر دستخط کیے۔ یہ اقدام عالمی تنازعات کے پرامن حل کے لیے پاکستان کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے اس تقریب میں پاکستان کی نمائندگی کی اور چین کے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے عالمی تنازعات کے پرامن حل کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے خاص طور پر بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں اور جموں و کشمیر کے تنازع کو اجاگر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی حالیہ فوجی جارحیت اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں علاقائی اور عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق جموں و کشمیر تنازع کے حل کی ضرورت پر زور دیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق چین IOMed کو عالمی عدالت انصاف (ICJ) کے ہم پلہ ادارے کے طور پر دیکھتا ہے، جس کا مقصد ہانگ کانگ کو تنازعات کے حل کا ایک معتبر عالمی مرکز بنانا ہے۔ ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹو جان لی نے دعویٰ کیا کہ یہ تنظیم دی ہیگ کی اقوام متحدہ کی ثالثی عدالت (Permanent Court of Arbitration – PCA) کے مساوی حیثیت رکھے گی۔ اس تنظیم کا صدر دفتر ہانگ کانگ کے وان چائی علاقے میں ایک سابقہ پولیس اسٹیشن میں قائم کیا جائے گا جو 2025 کے آخر یا 2026 کے اوائل میں فعال ہوگا۔ دستخطی تقریب میں چین، پاکستان، انڈونیشیا، لاؤس، کمبوڈیا، سربیا اور اقوام متحدہ سمیت 20 سے زائد بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔

ہانگ کانگ کا انتخاب اس کی تاریخی حیثیت کی وجہ سے اہم ہے کیونکہ اسے مشرق اور مغرب کے درمیان ایک "سپر کنیکٹر” کے طور پر جانا جاتا ہے۔ تاہم ہانگ کانگ کی چین کے خصوصی انتظامی علاقے کی حیثیت اس کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھاتی ہے، خاص طور پر مغربی ممالک کے نقطہ نظر سے جو اس کی عالمی ساکھ کو متاثر کر سکتے ہیں۔ 2019-2020 کے احتجاج اور چین کے بڑھتے ہوئے کنٹرول نے ہانگ کانگ کی بین الاقوامی ساکھ پر اضافی دباؤ ڈالا ہے، جو IOMed کی قبولیت کو محدود کر سکتا ہے۔

IOMed کا مقصد عالمی تنازعات کے حل کے لیے ایک متبادل پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے، خاص طور پر ان ممالک کے لیے جو موجودہ اداروں جیسے کہ ICJ اور PCA سے عدم اطمینان رکھتے ہیں۔ چین کی حالیہ سفارتی کامیابیاں جیسے کہ 2023 میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان صلح کرانا، اس کی ثالثی کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہ تنظیم ایشیا اور ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک پرکشش فورم ہو سکتی ہے کیونکہ موجودہ عالمی اداروں پر مغربی ممالک کا غلبہ بعض اوقات غیر مغربی ممالک کے لیے تحفظات کا باعث بنتا ہے۔ تاہم اس کی کامیابی کا انحصار اس کی غیر جانبداری اور شفافیت پر ہوگا۔ اگر یہ تنظیم چین کے سیاسی ایجنڈے سے وابستہ سمجھی گئی تو مغربی ممالک اور ان کے اتحادی اسے قبول کرنے میں ہچکچاہٹ دکھا سکتے ہیں۔

پاکستان کے لیے IOMed ایک اہم موقع ہے کہ وہ اپنے علاقائی تنازعات، خاص طور پر جموں و کشمیر اور سندھ طاس معاہدے اور پاکستان میں بھارت کی پراکسی وار اور دہشت گردی سے متعلق مسائل کو عالمی سطح پر اٹھائے۔ پاکستان کی چین کے ساتھ گہری شراکت، جو سی پیک (CPEC) اور 1963 کے سرحدی معاہدے جیسے منصوبوں سے ظاہر ہوتی ہے، اسے اس تنظیم میں ایک اہم شراکت دار بناتی ہے۔ تاہم پاکستان کی معاشی کمزوریاں اور چین پر بڑھتا ہوا انحصار اس کی خودمختاری پر سوالات اٹھاتا ہے۔ اسے اس پلیٹ فارم کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہوئے اپنے معاشی اور اسٹریٹجک توازن کو برقرار رکھنا ہوگا۔

IOMed کی عالمی تنازعات کے حل میں صلاحیت کا جائزہ لیتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایشیا اور ترقی پذیر ممالک کے تنازعات کے لیے ایک مؤثر فورم بن سکتی ہے، لیکن اس کی عالمی سطح پر قبولیت اس کی غیر جانبداری پر منحصر ہوگی۔ ICJ کے ہم پلہ ادارے کے طور پر اسے تسلیم کیے جانے کے لیے اسے ایک طویل مدتی عمل سے گزرنا ہوگا۔ IOMed کے لیے PCA کے مساوی حیثیت حاصل کرنا ممکن ہے، لیکن اس کے لیے اسے عالمی برادری کی حمایت اور ایک مضبوط فریم ورک کی ضرورت ہوگی۔ IOMed کے لیے ICJ یا PCA کا مکمل متبادل بننے کے بجائے ان کے ساتھ تعاون کرنا زیادہ عملی ہوگا۔ یہ تنظیم ایشیا میں تنازعات کے حل کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم بن سکتی ہے، لیکن عالمی تنازعات کے حل کے لیے اسے موجودہ اداروں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا ہوگی۔ پاکستان کو اس تنظیم کی غیر جانبداری کو یقینی بنانے کے لیے فعال کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ یہ صرف چین یا پاکستان کے ایجنڈے تک محدود نہ رہے۔

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی 2003ء سے اب تک مختلف قومی اور ریجنل اخبارات میں کالمز لکھنے کے علاوہ اخبارات میں رپورٹنگ اور گروپ ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹرکے طورپر زمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں اس وقت باغی ٹی وی میں بطور انچارج نمائندگان اپنی ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں

Latest from بلاگ