یہ کہانی آج کی نہیں کئی سال پہلے کی ہے انتخابات میں دھاندلی قوم کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے، سینٹ کے اجلاس میں سینیٹر عرفان صدیقی، سینیٹر مشاہد حسین نے بھی اس کا اظہار کیا ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس سوال کا جواب سیاسی قائدین ہی دے سکتے ہیں،اقتدار اور اختیارات کے سوداگر اس میں خود ملوث ہیں، سینیٹر عرفان صدیقی نے 2018ء اور اب 2024ء میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کا ذکر کیا اور کے پی کے انتخابات کا بھی ذکر کیونکہ ایک جماعت پی ٹی آئی دھاندلی زدہ انتخابات تو قرار دیتی ہے مگر کے پی کے انتخابات کو شفاف قرار دیتی ہے، تاہم خدا نہ کرے قوم انتشار کی سیاست کے راستوں پر چل کر ملک کو عدم استحکام کی طرف لے جائے جو پہلے ہی معیشت اور دیگر معاشرتی مسائل کی وجہ سے گرداب میں ہے،تاہم امریکہ اور اس کے اتحادی جس میں چین بھی شامل ہے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس اسلامی جمہوریہ میں عدم استحکام نہیں دیکھنا چاہتے،اب چونکہ مخلوط حکومت بننے جا رہی ہے یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں جاری انتشار کو روکنے کے لئے اپوزیشن سے انتقامی سیاست کو دفن کر کے اس ملک اور عوام کے لئے دوستی کا ہاتھ بڑھائیں کیوںکہ سیاست میں تشدد ہٹلر کا مذہب تھا، ہٹلر اور ہلاکو خان کے نقش قدم پر چلنے کے بجائے اسلامی راستوں کا انتخاب کیا جائے،
مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نوازشریف ایک زیرک سیاستدان ہیں جو کچھ مسلم لیگ ن کے ساتھ بطور جماعت کیا گیا وہ ایک الگ ہی داستان ہے لیکن یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سیاست میں اقتدار کے لئے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے نوازشریف نام کے بھی شریف ہیں اور ایک شریف انسان بھی ہیں،نوازشریف نے موجودہ وقت میں جب ملک و قوم معیشت کی وجہ سے انتہائی نازک اور تکلیف دہ حالات سے گزر رہے ہیں ملک میں جاری نفرت کی فضا کو کم کرنے کے لئے جو کردار ایک بار پھر ادا کیا اور برداشت کیا وہ قابل تحسین ہے تاہم ملکی سیاست میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے تاج و تخت کے حصول کی خاطر بادشاہ اپنے باپ بیٹوں اور بھائیوں تک کا خیال نہیں کرتے، مریم نوازشریف چونکہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزیر اعلیٰ بننے جا رہی ہیں ،انہیں پنجاب میں گڈ گورننس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کو مستحکم کرنے کا کردار ادا کرنا ہوگا،خوشامدی ٹولے سے بچنا ہوگا قوموں کو مایوس کرنے والے کو تاریخ کے صفحات جگہ نہیں دیتے اپنے والد کے نقش قدم پر چل کر عام آدمی کے لئے ترقی کا سفر شروع کریں۔