اقرارالحسن پر لاہور میں تشدد،مبشر لقمان حکومتی اداروں پر برس پڑے

0
30

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ اقرار الحسن لاہور میں تھے اور ڈی ایچ اے میں تھانے کے سامنے ان پر فائرنگ کی گئی اور نامعلوم افراد فرار ہو گئے

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ میں بہت سخت احتجاج کرنا چاہتا ہوں،بہت سے صحافی یہ جھیل رہے ہیں، ہم نے بھی جھیلی ہیں، حکومت تحفظ فراہم نہیں کر رہی، کئی بار ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی اپنی مرضی ہوتی ہے، سیف سٹی پروجیکٹ کتنے بجٹ سے بن گیا، جگہ جگہ کیمرے لگ گئے،آج جب یہ واقعہ ہوا مجھے یقین ہے کہ اسکی ویڈیو سامنے نہیں آئے گی، پتہ چلے گا کہ وہاں کیمرہ نہیں تھایا چل نہیں رہا تھا، اسکا مطلب ہے کہ کون محفوظ ہے، اسکا مطلب ہے کہ لاہورایک سیف ترین شہروں میں سے ہے، کوئی انٹریئر میں نہیں کہ جہاں ہر وقت جرائم ہوتے رہے ہیں، لاہور کا بھی سب سے پوش ترین علاقہ ،سیف علاقہ جہاں بچے گراؤنڈ میں کرکٹ کھیل رہے ہوں تو انکو تو پکڑ لیا جاتا ہے لیکن ملزمان کو نہیں پکڑا جاتا

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ کوئی کسی کی گاڑی روک کر تھانے کے بالکل سامنے اس طرح کی حرکت کرتا ہے اور فرار ہوتا ہے تو یہ تشویش کی بات ہے،کیا اس طرح ہوتا رہے گا ، مذمت کی بات آ جائے گی،کمیٹی بن گئی یا کچھ ہو گیا، ایس ایچ او کو تبدیل کر دیا گیا، یہی چلتا رہے گا؟ ان مجرموں کو کیفر کردار تک کون پہنچائے گا، اگر کسی کا پرسنل ایشو بھی ہو تو کسی کو حق نہیں کہ قانون ہاتھ میں لے، اقرارالحسن، مبشر لقمان سے اختلاف کر سکتے ہیں، مریم، بلاول، عمران خان،کسی سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں،

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ڈی جے بٹ کو جس طرح گرفتار کیا گیا اور وہ کیا بھی پولیس نے، اسکے پاس جو گن برآمد ہوئی وہ چلائی ابھی تک نہیں، اسکے پاس لائسنس بھی تھا، یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ ڈی جے بٹ ان جلسوں کے کنٹریکٹ میں تھا ہی نہیں جس کی وجہ سے اسکو پکڑا گیا، شیخ رشید کی تعیناتی پر اعتراض ہو رہا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ خوش آئند ہے، جو تھانوں کو ،پولیس کے مزاج کو سمجھتا ہے جس نے بے انتہا وزارتیں سنبھالی ہیں، انکو پتہ ہے کہ کیسے ڈیل کرنا ہے، موٹروے کیس کا کیا ہوا، اس عورت کے ساتھ کیا ہوا جس کے ساتھ زیادتی ہوئی، اسکا مطلب ہے کہ ہم ٹویٹر سوشل میڈیا، میڈیا پر آ‌کر اونچے اونچے نعرے مارتے ہیں کاروائی کچھ بھی نہیں، کیا صحافیوں کو چپ کروایا جا رہا ہے، ان صحافیوں کو جن کی رپورٹنگ اچھی نہیں لگتی، کیا یہ باقی ساروں کے لئے بھی میسج ہے، لاہور میں تھانے کے سامنے مارا جا سکتا ہے تو باقی صحافیوں کو کون تحفظ دے گا.

Leave a reply