مزید دیکھیں

مقبول

سونے کی قیمت 306,000 روپے فی تولہ پر مستحکم

کاروباری ہفتے کے پہلے رو زملک بھر میں فی...

کراچی سے طالب علم اغوا، 6 کروڑ تاوان کا مطالبہ

کراچی کے علاقے منگھوپیر کی عمر گوٹھ سے نویں...

نماز کی امامت کے دوران بلی امام کے کندھے پر چڑھ گئی

نماز کی امامت کے دوران بلی پیش امام کے...

حضرت خدیجہ طاہرہ کی عظمت.تحریر: سیدہ عطرت بتول نقوی

جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے...

شاعر مشرق اور آج کا نوجوان.تحریر:ریحانہ جدون

علامہ اقبال، جنہیں "شاعر مشرق” کے لقب سے نوازا گیا، نہ صرف ایک عظیم شاعر تھے بلکہ ایک فلاسفر اور مفکر بھی تھے۔ ان کی شاعری میں ایک ایسی گہری بصیرت اور دلوں کو متحرک کرنے والی قوت تھی جو آج بھی نوجوانوں کو متاثر کرتی ہے۔ ان کا پیغام ہمیشہ سے یہی رہا کہ انسان کو اپنے آپ کو پہچاننا چاہیے اور اپنی تقدیر خود لکھنی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آج کا نوجوان اقبال کے پیغام کو سمجھتا ہے اور ان کی شاعری کو اپنے معاشرتی، سیاسی اور ذاتی زندگی میں کس طرح ڈھالتا ہے؟

علامہ اقبال کی شاعری میں جو جوش اور جذبہ تھا، وہ آج بھی نوجوانوں کے لئے ایک قیمتی خزانہ ہے۔ اقبال نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ نوجوانوں کو اپنے عزم و ارادے کو مضبوط کرنا چاہیے اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لئے محنت کرنی چاہیے۔ ان کی مشہور نظم "خُدی کو کر بلند اتنا” اسی پیغام کا عکاس ہے۔آج کا نوجوان اگرچہ اپنے دور کے مختلف چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، مگر اس کے پاس وسائل اور مواقع بھی بے شمار ہیں۔ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، اور جدید ٹیکنالوجی نے نوجوانوں کے لئے نئے دروازے کھولے ہیں، لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ، اگر اس نوجوان کی شخصیت میں اقبال کی طرح کی بلندی نہ ہو، تو وہ ان وسائل کا صحیح استعمال نہیں کر پائے گا۔

اقبال نے ہمیشہ "خودی” کے تصور پر زور دیا۔ ان کے نزدیک "خودی” انسان کی اندرونی طاقت ہے، جو اسے مشکلات کا مقابلہ کرنے کی جرات اور حوصلہ دیتی ہے۔ آج کے نوجوانوں میں یہ خودی کی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ معاشرتی دباؤ، مقابلہ بازی، اور خود کو ثابت کرنے کی خواہش کی وجہ سے نوجوان اکثر اپنے حقیقی مقصد سے بھٹک جاتے ہیں۔اقبال کا پیغام تھا کہ انسان جب تک اپنے آپ کو نہیں پہچانے گا، اس کی زندگی کا مقصد بھی غیر واضح رہے گا۔ وہ ہمیشہ اپنی شاعری میں اس بات پر زور دیتے رہے کہ انسان کو اپنی تقدیر کے بارے میں آگاہی حاصل کرنی چاہیے اور اپنے اندر کی قوت کو پہچان کر اسے دنیا میں نمایاں کرنا چاہیے۔

آج کا نوجوان اقبال کی شاعری کو کسی حد تک سمجھتا ہے، مگر اس کے لئے ان کے پیغام کو عملی زندگی میں لانا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ اقبال کا خواب تھا کہ مسلمانوں کی اجتماعی قوت ایک نئی تحریک پیدا کرے، لیکن کیا آج کے نوجوان ان خیالات کو حقیقت کا روپ دے پا رہے ہیں؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔آج کا نوجوان کئی مرتبہ معاشرتی دباؤ، تعلیم، روزگار، اور ذاتی مسائل کے شکار ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں اقبال کی "خودی” کا پیغام اور اس کے مطابق اپنی تقدیر خود بنانے کا نظریہ ایک ترغیب فراہم کر سکتا ہے۔ اقبال کی شاعری نوجوانوں کو یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ کامیابی صرف محنت اور عزم سے آتی ہے، اور اگر انسان خودی کو بلند کرنے میں کامیاب ہو جائے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے روکھ نہیں سکتی۔

اقبال کی شاعری ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہر نوجوان کو اپنے اندر جھانک کر اپنی کمزوریوں کو پہچاننا چاہیے اور ان کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آج کے دور میں جہاں فنی، سائنسی اور فکری جدتیں آ رہی ہیں، وہیں نوجوانوں کو اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے ان نئی تبدیلیوں کو اپنانا ضروری ہے۔ اس میں اقبال کی شاعری ایک رہنمائی کا کام کر سکتی ہے۔

آج کے نوجوان کے لئے اقبال کا پیغام واضح ہے:
"خُدی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خُدا بندے سے خود پُوچھے، بتا، تیری رضا کیا ہے؟”

شاعر مشرق، علامہ اقبال کی شاعری نہ صرف ایک عہد کا آئینہ ہے، بلکہ آج کے نوجوانوں کے لئے ایک قیمتی ہدایت ہے۔ اگر ہم اقبال کی تعلیمات پر عمل کریں، تو نہ صرف اپنی زندگی میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ایک بہتر معاشرتی اور سیاسی نظام کی تشکیل میں بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اقبال کا پیغام ہمیشہ نوجوانوں کے لئے یہ ہے کہ "خود پر یقین رکھو”، "محنت کرو”، اور "دنیا کو بدلنے کے لئے اپنے آپ کو بدلنا ضروری ہے”۔یاد رکھیں، اقبال کی شاعری آج بھی ہمارے لئے ایک روشن راہ دکھاتی ہے۔ اس راہ کو اختیار کر کے ہم اپنے خوابوں کو حقیقت بنا سکتے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی قوم اور اپنے ملک کو بھی فلاح کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔

ریحانہ جدون
ریحانہ جدون
Freelance digital media writer |Blogger | columnist for http://baaghitv.com and social media activist @Rehna_7