کینیڈا کے پہاڑی علاقے میں جاری جی-7 سربراہی اجلاس کے پہلے روز عالمی رہنما امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دینے کی تیاری کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیل اور ایران کے درمیان بگڑتے ہوئے تنازعے سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی واضح کریں۔ متعدد ممالک کے وفود کے حکام کے مطابق، اجلاس کے دوران اس مسئلے پر شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔
اجلاس کے منتظمین کی کوشش ہے کہ ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے جس میں کشیدگی میں کمی کی اپیل کی جائے، اور اس حوالے سے رکن ممالک کے درمیان الفاظ کے انتخاب پر مشاورت جاری ہے۔تاہم، اسرائیل کی ایران کے خلاف کارروائیوں کی حمایت کی حد پر مختلف ممالک میں اختلافات موجود ہیں۔ جہاں امریکہ اسرائیل کی حمایت کرتا رہا ہے، وہیں ٹرمپ انتظامیہ ایران کے خلاف کسی براہ راست امریکی فوجی کارروائی سے گریزاں نظر آتی ہے۔
واشنگٹن سے روانگی کے وقت صدر ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان میزائل حملوں کا سلسلہ کسی معاہدے کے ذریعے ختم ہو سکتا ہے، اور انہوں نے اس اعتماد کا اظہار بھی کیا کہ ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات ممکنہ طور پر جاری رہیں گے۔لیکن یورپی حکام کے لیے یہ واضح نہیں کہ صدر ٹرمپ اس قدر پُرامید کیوں ہیں، خاص طور پر اسرائیلی حملوں کی شدت اور دائرہ کار کے پیش نظر،یورپی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ چونکہ امریکہ کا اسرائیل پر غیرمعمولی اثر و رسوخ ہے، اس لیے وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا امریکہ اس تنازعے کو طول دینے کی اجازت دے گا یا صدر ٹرمپ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ کشیدگی میں کمی لائیں۔
اس دوران فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون اور صدر ٹرمپ کے درمیان اس تنازعے میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے کردار پر اختلاف سامنے آیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے روسی صدر سے ٹیلیفونک رابطے کے بعد یہ عندیہ دیا کہ پیوٹن ثالث کا کردار ادا کر سکتے ہیں، جبکہ میکرون نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔گرین لینڈ کے دورے کے دوران میکرون نے کہا کہ روس خود اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یوکرین پر حملہ کر چکا ہے، اس لیے اسے امن کا ثالث نہیں بنایا جا سکتا۔فرانسیسی صدر نے مزید کہا کہ امریکہ ہی سب سے زیادہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ فریقین کو مذاکرات کی میز پر واپس لائے، کیونکہ اسرائیل بڑی حد تک امریکی اسلحے پر انحصار کرتا ہے۔
اجلاس کی پیش رفت کے ساتھ ہی دنیا کی نظریں اس بات پر مرکوز ہیں کہ آیا صدر ٹرمپ اور دیگر عالمی رہنما خطے میں جاری کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کوئی متفقہ لائحہ عمل اختیار کر پاتے ہیں یا نہیں۔