ایران.اسرائیل جنگ، بھارتی جاسوسی اور پاکستان کا کردار
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر تنازعات اور جارحیت کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ ایران اور اسرائیل کے مابین حالیہ کشیدگی نے خطے کو عسکری، سفارتی اور جغرافیائی سیاسی لحاظ سے ایک نازک موڑ پر لاکھڑا کیا ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے ایران میں موجود بھارتی دہشت گرد نیٹ ورکس کے الزامات نے اس تنازع کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔

ایران.اسرائیل تنازع کا آغاز اسرائیلی حملوں سے ہوا جن میں پاسدارانِ انقلاب کے اعلیٰ کمانڈرز اور ایٹمی سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ایرانی سرکاری خبر رساں اداروں کے مطابق ان حملوں میں پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی، سابق سربراہ محمد باقری، ایرو اسپیس فورس کے کمانڈر امیر علی حاجی زادہ اور خاتم الانبیاء ہیڈکوارٹر کے سربراہ غلام علی رشید سمیت کئی اہم شخصیات شہید ہوئیں۔ ساتھ ہی ساتھ جوہری سائنسدانوں جیسے احمد رضا ذوالفقاری دریانی، فریدون عباسی، محمد مہدی تہرانچی، عبدالحمید مینوچھر اور امیر حسین فقہی کی ہلاکت نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو شدید دھچکا پہنچایا۔

اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ان حملوں کا جواز پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کا مقصد ایران کے جوہری عزائم کو روکنا تھا جو ان کے بقول حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ اسرائیل کی یہ پوزیشن کہ ایران ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کر رہا ہے، عالمی سطح پر شدید تنازع کا باعث بنی کیونکہ ایران ہمیشہ اپنے جوہری پروگرام کو پرامن مقاصد کے لیے قرار دیتا رہا ہے۔

ان حملوں میں 86 افراد کی شہادت اور 341 کے زخمی ہونے کے بعد ایران نے پراکسی جنگ کے بجائے براہِ راست عسکری ردِعمل کا فیصلہ کیا۔ ایرانی میزائلوں اور ڈرونز نے تل ابیب، حیفہ اور جنوبی اسرائیل کے حساس فوجی اہداف کو نشانہ بنایا، جس سے اسرائیل کے فضائی دفاع کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے دعویٰ زمین بوس ہوگیا ۔ یہ حملے نہ صرف عسکری تنصیبات کو نقصان پہنچانے میں کامیاب رہے بلکہ اسرائیلی عوام کو خوف میں مبتلا کردیا جو ایک واضح پیغام تھا کہ اسرائیل اب خطے میں خود کو غیر محفوظ تصور کرے۔

اس تناظر میں پاکستان کا کردار نہایت اہم اور قابلِ ذکر ہے۔ پاکستان نے اسرائیلی حملوں کی واضح مذمت کی اور ایران کے "حقِ دفاع” کی کھل کر حمایت کی جو پاکستان کی اس دیرینہ خارجہ پالیسی کا تسلسل ہے جو فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت، علاقائی خودمختاری اور غیر جانبداری پر مبنی ہے۔ شدید معاشی اور سیاسی دباؤ کے باوجود پاکستان نے عالمی سطح پر ایک اصولی اور مستقل موقف اختیار کیا جو مسلم دنیا کی بڑھتی ہوئی تقسیم کے پس منظر میں ایک جراتمندانہ مثال کے طور پر سامنے آیا۔

پاکستان اور ایران کے تعلقات جغرافیائی قربت، تہذیبی رشتہ داری اور تاریخی رفاقت پر مبنی رہے ہیں اور افغانستان و بھارت جیسے دیگر ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں ایران سے پاکستان کے روابط نسبتاً مستحکم سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں بعض پیچیدہ عوامل ان تعلقات میں رکاوٹ بنے ہیں، خاص طور پر پاکستان کی جانب سے ایران کو بھارتی دہشت گردی کے ثبوت فراہم کرنے کے باوجود مؤثر کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان اور ایران کے درمیان تناؤ کی کیفیت بھی پیدا ہوئی۔

پاکستان نے متعدد بار ایران کو بھارتی خفیہ ایجنسی "را” کے تخریبی نیٹ ورکس کے ثبوت فراہم کیے، جن میں بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سرفہرست ہے۔ کلبھوشن جو ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہوا تھا، نے اپنے اعترافی بیان میں "را” کی پاکستان میں دہشت گرد سرگرمیوں میں شمولیت کا اعتراف کیا۔ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ایران کی سرزمین کو بھارتی دہشت گردوں نے پاکستان کے خلاف استعمال کیا ،ایران میں پاکستانی مزدوروں کا قتل اور اس کے علاوہ ایران نے ان کے خلاف بروقت اقدام نہ کرکے بلوچستان اور دیگر سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کو فروغ دیا، جس کے نتیجے میں متعدد پاکستانی شہری شہید ہوئے۔

پاکستان کا یہ بھی مؤقف ہے کہ اگر ایران نے وقت پر اقدامات کیے ہوتے تو نہ صرف یہ دہشت گرد نیٹ ورکس کمزور ہوتے بلکہ ایران خود بھی اسرائیلی جاسوسی و دہشت گردی سے محفوظ رہ سکتا تھا۔ برطانوی اخبار "گارڈین” کی ایک رپورٹ میں بھی بھارت کے ان نیٹ ورکس کی عالمی سرگرمیوں کا انکشاف کیا گیا، جس میں پاکستان، کینیڈا اور دیگر ممالک میں "را” کی ٹارگٹ کلنگ کی حکمت عملی سامنے لائی گئی۔ رپورٹ کے مطابق بھارت نے 2019 کے پلوامہ حملے کے بعد اپنے مخالفین کو بیرون ملک ختم کرنے کی حکمتِ عملی اپنائی اور اس کے لیے "را” نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی "موساد” اور روسی "کے جی بی” سے تربیت حاصل کی۔

ایران میں حالیہ گرفتاریوں نے ان خدشات کو مزید تقویت دی ہے۔ اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) نے 73 بھارتیوں کو اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ علاوہ ازیں یزد شہر میں پانچ ایرانی شہریوں کو حساس تنصیبات کی تصاویر اسرائیل کو بھیجنے کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔ ان واقعات نے پاکستان کے اس دعوے کو تقویت دی کہ بھارت نہ صرف پاکستان بلکہ ایران کے اندر بھی تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔

پاکستان کا یہ واضح موقف ہے کہ بھارت نے ایران کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور اسرائیل کے لیے جاسوسی کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کیا۔ اگر ایران نے پاکستان کے پیش کردہ ثبوتوں پر بروقت توجہ دی ہوتی تو شاید اسرائیلی حملے اور ایرانی کمانڈرز کی شہادت جیسے سانحات روکے جا سکتے تھے۔

مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی نے مسلم دنیا کے اندر بڑھتی ہوئی تقسیم کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ خلیجی ریاستیں جو کبھی اسرائیل کے خلاف صف آراء تھیں، اب غیر جانبداری یا خاموشی کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ اس کی وجوہات میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی، امریکی دباؤ اور اقتصادی مفادات شامل ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان نے اصولی موقف اپناتے ہوئے ایران کی حمایت جاری رکھی اور عالمی فورمز پر اس کے حق میں آواز بلند کی، جس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی استقامت کا اندازہ ہوتا ہے۔

تاہم پاکستان کو عالمی دباؤ اور خطے میں بدلتے ہوئے سیاسی اتحادوں کا ادراک بھی رکھنا ہوگا۔ ایران.اسرائیل جنگ اور بھارتی دہشت گردیاور جاسوسی کے نیٹ ورکس نے مشرق وسطیٰ کی سیاست کو ایک نئے موڑ پر پہنچا دیا ہے۔ ایران کی جانب سے کی گئی براہِ راست عسکری کارروائی نے اسرائیل کے ناقابلِ شکست ہونے کے تصور کو ملیامیٹ کردیاہے جبکہ پاکستان کے فراہم کردہ بھارتی دہشت گردی کے ثبوتوں نے عالمی برادری کو خطے کی حساس سیاسی صورتحال پر سنجیدگی سے غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

پاکستان کے لیے یہ ایک فیصلہ کن لمحہ ہے، جہاں اسے اپنی سفارتی حکمت عملی کو نہ صرف مزید مستحکم کرنا ہوگا بلکہ عالمی سطح پر بھارتی دہشت گردی اور اسرائیلی خفیہ نیٹ ورکس کے خلاف مؤثر مہم بھی جاری رکھنا ہوگی۔ ایران کے ساتھ تعاون اور خطے کے استحکام کے لیے مشترکہ اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔

مشرق وسطیٰ کی حالیہ کشیدگی کا انجام کچھ بھی ہو، اس خطے کی سیاسی، عسکری اور سفارتی نوعیت اب ویسی نہیں رہے گی جیسی ماضی میں تھی۔ طاقت کا توازن، اتحادوں کی سمت اور قوموں کی ترجیحات ایک نئی شکل اختیار کر رہی ہیں۔ اگر مسلم دنیا اب بھی متحد نہ ہو سکی تو آئندہ تصادم صرف ایران و اسرائیل تک محدود نہیں رہے گا بلکہ وہ ہر اس ملک کو اپنی لپیٹ میں لے گا جو آزادی، خودمختاری اور انصاف کی بات کرے گا۔

Shares: