ایران نے عندیہ دیا ہے کہ اگر امریکا کے ساتھ کوئی معاہدہ طے پاتا ہے تو وہ اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے (IAEA) کے ذریعے امریکی انسپکٹرز کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دینے پر غور کر سکتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق، ایرانی اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے سربراہ محمد اسلامی نے بدھ کے روز صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ان ممالک کے معائنہ کار جو ایران کے مخالف رہے ہیں، ہمارے لیے پہلے قابلِ قبول نہیں تھے، تاہم اگر کوئی معاہدہ طے پاتا ہے اور تہران کے مطالبات تسلیم کیے جاتے ہیں تو اس پالیسی پر نظرثانی ممکن ہے۔
محمد اسلامی نے مزید کہا کہ موجودہ مذاکرات میں افزودگی کا معاملہ بالکل نہیں اٹھایا گیا، اور یورینیم کی افزودگی کی شرح کو سیاسی رنگ دینا درست نہیں۔ ان کے مطابق، "افزودگی کا فیصد استعمال کی قسم پر منحصر ہے، اور زیادہ افزودہ یورینیم کا مطلب لازماً فوجی مقاصد نہیں ہوتا۔”ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے بھی اسی موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ایران میں یورینیم کی افزودگی جوہری صنعت کا بنیادی حصہ ہے اور اس اصول پر کوئی بھی سمجھوتہ ناقابلِ قبول ہے۔
ایرانی اور امریکی حکام کے درمیان گزشتہ چند ہفتوں میں جوہری مسئلے پر پانچ دور کی بات چیت ہو چکی ہے، جو 2018 میں امریکا کی یکطرفہ دستبرداری کے بعد اب تک کی اعلیٰ سطحی پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔ اسماعیل بقائی کے مطابق، مذاکرات کے اگلے دور کے مقام اور وقت پر مشاورت جاری ہے، اور اس کا اعلان عمان کرے گا، جو اس عمل میں ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے۔
ایرانی صدر مسعود پزشکیان، جو اس وقت عمان کے سرکاری دورے پر ہیں، نے خلیجی ریاست کی ثالثی کی کوششوں کا شکریہ ادا کیا۔فی الحال ایران 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کر رہا ہے، جو کہ کسی بھی غیر جوہری ہتھیاروں والی ریاست کے لیے غیرمعمولی حد ہے۔ اگرچہ یہ ہتھیاروں کے لیے درکار 90 فیصد کی سطح سے کم ہے، لیکن 2015 کے معاہدے کی 3.67 فیصد حد سے کہیں زیادہ ہے۔
فرانس، جرمنی اور برطانیہ — جو معاہدے کے یورپی فریقین ہیں — اس وقت اس امکان پر غور کر رہے ہیں کہ آیا ‘اسنیپ بیک’ میکانزم کو فعال کیا جائے، جس کے تحت ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں بحال ہو سکتی ہیں۔ ایران نے اس اقدام کے خلاف سخت خبردار کیا ہے۔
ٰیاد رہے کہ 2015 کے جوہری معاہدے سے امریکا کی دستبرداری اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی "زیادہ سے زیادہ دباؤ” کی پالیسی کے بعد ایران نے جوہری سرگرمیوں میں تیزی لائی، جس پر مغربی دنیا کو شدید تحفظات ہیں۔ تاہم، ایران مسلسل اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کر رہا۔
ایران میں اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے والے شخص کو سزائے موت
پاکستان بمقابلہ بنگلہ دیش: پہلے ٹی20 میں قومی ٹیم کی بیٹنگ جاری