تہران: ایران کے نومنتخب صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے آج ایرانی پارلیمنٹ میں اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ یہ تقریب ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ پزشکیان کو ایران کے اصلاح پسند حلقوں کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔حلف برداری کی اس پرشکوہ تقریب میں 80 سے زائد ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی، جس میں پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار بھی شامل تھے۔ یہ بین الاقوامی شرکت ایران کی عالمی سطح پر اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔70 سالہ ڈاکٹر پزشکیان، جو پیشے کے لحاظ سے ایک ہارٹ سرجن ہیں، کا انتخاب حالیہ ہفتوں میں ہوا۔ یہ انتخاب غیر معمولی حالات میں ہوا، کیونکہ سابق صدر ابراہیم رئیسی کی مئی 2023 میں ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت کے بعد قبل از وقت انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ اس حادثے میں ایران کے وزیر خارجہ امیر حسین سمیت 6 دیگر اہم حکومتی شخصیات بھی جاں بحق ہوئی تھیں۔
پزشکیان کے انتخاب کو ایران کی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز سمجھا جا رہا ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک اعتدال پسند رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں سماجی انصاف، متوازن ترقی اور اصلاحات پر زور دیا تھا۔ خاص طور پر، انہوں نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے لچک کا مظاہرہ کیا ہے، حجاب پر سختی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، اور ایران کی ‘اخلاقی پولیس’ کو ‘غیر اخلاقی’ قرار دیا ہے۔بین الاقوامی سطح پر، پزشکیان نے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے اور جوہری معاہدے کو بحال کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ ان کا مقصد ایران پر عائد عالمی پابندیوں کو ختم کروانا ہے تاکہ ملک کی معیشت کو مستحکم کیا جا سکے۔ملک کے اندر، نئے صدر نے معیشت میں شفافیت لانے، بدعنوانی کے خاتمے، صحت کے شعبے میں بہتری اور تعلیمی معیار کو بلند کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
پزشکیان کو سابق اصلاح پسند صدور حسن روحانی اور محمد خاتمی کی حمایت حاصل ہے، جبکہ سابق وزیر خارجہ جواد ظریف بھی ان کے حامیوں میں شامل ہیں۔ یہ حمایت ان کے اصلاحاتی ایجنڈے کی مضبوطی کا اشارہ دیتی ہے۔ایران کے آئین کے مطابق، نئے صدر کو اگلے دو ہفتوں میں اپنی کابینہ کا اعلان کرنا ہوگا۔ یہ انتخاب ان کی پالیسیوں اور حکمت عملی کے بارے میں مزید واضح تصویر پیش کرے گا۔پزشکیان کی صدارت ایران کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتی ہے، جہاں وہ اندرونی اصلاحات اور بین الاقوامی تعلقات میں بہتری کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ آنے والے مہینوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ وہ اپنے وعدوں پر کس حد تک عمل کر پاتے ہیں اور ایران کی سیاسی اور معاشی صورتحال میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں۔

Shares: