ماہرین کا کہنا ہے کہ بحیرہ کیسپین کا راستہ ڈرون، گولہ بارود اور مارٹر گولوں اور دیگر جنگی ہتھیاروں کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جو روسی حکومت نے ایرانی حکومت سے خریدے ہیں۔
باغی ٹی وی : بحیرہ کیسپین ایران اور روس کے درمیان براہ راست سمندری راستہ فراہم کرتا ہےکارگو ٹریفک میں غیرمعمولی تیزی دیکھی گئی ہے، جس میں تہران سے ماسکو تک ہتھیاروں کو مشتبہ طریقے سے منتقل کرنے والے جہاز بھی شامل ہیں۔
جھوٹےدعووں کےذریعہ ہی یوکرین مغربی ملکوں سےہتھیاراورمالی امداد حاصل کرسکتا ہے،ایران
"العربیہ” کے مطابق سمندری تجارت کے اعداد و شمار کو شائع کرنے میں مہارت رکھنےوالی کمپنی”لائیڈز لسٹ انٹیلی جنس” کے عداد و شمار کےمطابق، اگست اور ستمبر 2022 کےدرمیان بحیرہ کیسپین میں اپنی نقل و حرکت کو چھپانے والے بحری جہازوں میں 50 فیصد سے زیادہ تیزی سے اضافے کا انکشاف ہوا ہے جو موجودہ سال کے دوران بھی جاری ہے۔
ڈیٹا تجزیہ کار اور کمپنی کے نمائندے برجٹ ڈیاکون نے کہا کہ یہ رجحان زیادہ تر ان جہازوں میں نظرآیا جو روسی اور ایرانی پرچم رکھتے تھے اور خاص طور پر کارگو جہاز جو ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں روس کے جھنڈے والے اور ایران کے جھنڈے والے مال بردارجہازوں کے ٹریکنگ ڈیٹا میں سب سےزیادہ خلا ایران کی امیرآباد اورانزالی بندرگاہوں کےساتھ ساتھ روس کے دریائے وولگا اور استر اخان میں اس کی بندرگاہ کے قریب واقع ہوئے ہیں۔
سعودی عرب اور کینیڈا کے سفارتی تعلقات بحال، نئے سفیروں کے تقرر پر اتفاق
سی این این کے مطابق، یہ اضافہ امریکی اور یوکرین کی حکومتوں کے اس اعلان کے فوراً بعد ہوا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ماسکو نے گذشتہ موسم گرما میں تہران سے ڈرون حاصل کیے تھے۔
سی این این نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ میرین ٹریکنگ اور تجزیاتی کمپنی سے لیے گئے ڈیٹا کے استعمال کے ذریعے آٹھ بحری جہازوں کی شناخت کرنے کے قابل ہوگیا تھا جن میں سے چھ روسی اور دو ایرانی تھے، ان تمام نے بحیرہ کیسپین میں مشکوک رویہ ظاہر کیا اور ممکنہ طور پر اسلحے کی تجارت سے منسلک ہیں۔
فون چھیننے پر طالبہ نے ہاسٹل کو آگ لگا دی،19 طالبات ہلاک
ان بحری جہازوں میں سے ایک روسی پرچم والا ٹینکر تھا جسے جنوری کے اوائل میں ایران کی امیر آباد بندرگاہ سے نکلتے ہوئے بحیرہ کیسپین کے پار روسی بندرگاہ استراخان کی طرف جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا اس نے اشارہ کیا کہ وہ آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتا کہ یہ ٹینکر کیا لے کر جا رہا تھا، لیکن ماہرین نے تصدیق کی کہ یہ کھیپ ممکنہ طور پر اسلحے کی تجارت سے متعلق تھی۔
واضح رہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور ان کے ایرانی ہم منصب ابراہیم رئیسی نے گزشتہ ہفتے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت "شمال اور جنوب کے درمیان نقل و حمل کی شریان” کے قیام کے پہلے مراحل کے طور پر ایک ایرانی ریلوے کی تعمیر کی جائے گی۔
پیوٹن نے کہا کہ ریلوے جس کی ایک مرکزی شاخ بحیرہ کیسپین کے ساتھ چلے گی بحیرہ بالٹک پر روسی بندرگاہوں کو بحر ہند اور خلیج میں ایرانی بندرگاہوں سے جوڑنے میں مدد کرے گی، جس سے دونوں ممالک کے لیے عالمی تجارت کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔