ایران نے اقوام متحدہ کے جوہری نگرانی کے ادارے، انٹرنیشنل ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA)، کے ساتھ اپنا تعاون معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ امریکی اور اسرائیلی ہوائی حملوں کے بعد آیا ہے جن میں 12 دنوں کے دوران ایران کے جوہری مراکز کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ ایرانی پارلیمنٹ نے اس بل کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت IAEA کے انسپکٹرز کو ملک کے افزودگی مراکز میں داخلے سے روک دیا جائے گا۔
پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے کہا کہ "IAEA نے ایران کے جوہری مراکز پر حملے کی سخت مذمت کرنے سے انکار کیا، جس نے اس کی بین الاقوامی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ "ایٹمی توانائی تنظیم ایران اب IAEA کے ساتھ تعاون روک دے گی جب تک کہ جوہری مراکز کی سلامتی کی مکمل ضمانت نہ دی جائے۔” اس بل کی حتمی منظوری سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کی طرف سے دی جائے گی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ ان کے بھیجے گئے بنکر بستر بم اور ٹامہاک میزائلز نے ایران کے جوہری مراکز کو مکمل تباہ کر دیا ہے اور ایران کی ایٹمی بم بنانے کی صلاحیت کو ختم کر دیا ہے۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے پاس اب بھی زیادہ افزودہ یورنیئم کی بڑی مقدار موجود ہے اور ممکن ہے کہ اس کے پاس دیگر خفیہ مراکز بھی ہوں جہاں وہ ایٹمی مواد تیار کر رہا ہو۔
IAEA کے سربراہ رافیل گروسّی نے ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کو خط لکھ کر تعاون بحال کرنے کے لیے ملاقات کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے کہا، "IAEA کے ساتھ تعاون کی بحالی ایک کامیاب سفارتی معاہدے کی کلید ہے جو ایران کے جوہری پروگرام کے تنازعے کو حل کر سکتا ہے۔” گروسّی نے کہا کہ IAEA کے انسپکٹرز ابھی بھی ایران میں موجود ہیں اور کام شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ماہرین کے مطابق، ایران کی جانب سے IAEA کے ساتھ تعاون روکنا اس کے نیوکلیئر نان پرو لیفریشن ٹریٹی (NPT) کے تحت ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہو گی۔ تاہم، امریکی اور اسرائیلی حملوں کے بعد ایران اس معاہدے سے نکلنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔ RUSI کی پروفیشنل ڈاریا ڈولزیکووا کا کہنا ہے کہ NPT کے تحت کوئی ملک تین ماہ کا نوٹس دے کر معاہدے سے نکل سکتا ہے اگر اسے لگے کہ اس کے مفادات کو شدید خطرہ ہے، اور گزشتہ ہفتوں کے واقعات ایران کو یہ جواز فراہم کر سکتے ہیں۔
مئی میں IAEA نے اطلاع دی تھی کہ ایران کے پاس 400 کلوگرام سے زیادہ 60 فیصد افزودہ یورنیئم موجود ہے، جو ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے کافی ہے۔ اگر ایران اس افزودگی کو 90 فیصد تک بڑھا دے تو وہ جدید اور ہلکے ایٹمی ہتھیار بنا سکتا ہے جو میزائلوں پر نصب کیے جا سکتے ہیں۔
اب تک یہ معلوم نہیں کہ امریکی حملہ ‘آپریشن مڈنائٹ ہتھ’ ایران کے فورڈو فیول افزودگی پلانٹ پر کتنا مؤثر رہا، جہاں افزودگی کی مشینیں 90 میٹر گہرائی میں چٹانوں اور کنکریٹ کے نیچے چھپی ہوئی ہیں۔ خدشہ ہے کہ ایران کے پاس اور بھی خفیہ ایٹمی مراکز ہو سکتے ہیں جن کی اطلاع اسرائیلی موساد اور امریکی سی آئی اے کے پاس نہیں ہے۔
یہ اقدام عالمی برادری کے لیے ایک تشویش کا باعث ہے کیونکہ ایران کے اس قدم سے خطے میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھ سکتا ہے اور سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔