ایران کی جانب سے جدید چینی فضائی دفاعی نظام حاصل کرنے کی حالیہ تصدیق عالمی جغرافیائی سیاست میں ایک نمایاں تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ پیش رفت مشرق وسطیٰ میں امریکی غلبے کو مزید چیلنج کرتی ہے اور ایک ابھرتی ہوئی کثیر قطبی عالمی ترتیب کو تقویت دیتی ہے۔ تجزیہ نگار کارل ژا، برائن برلیٹک، ڈینی ہائی فونگ اور کے جے نوہ نے اس پیش رفت کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے نہ صرف ایران کی اسٹریٹجک ازسرنو صف بندی کو اجاگر کیا بلکہ امریکی و اسرائیلی عسکری حکمت عملی کی بڑھتی ہوئی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔

### *ایران کے لیے ایک اسٹریٹجک سہارا*
ایران کا فیصلہ کہ وہ چینی سطح سے فضا میں مار کرنے والے میزائل سسٹمز (SAMs) حاصل کرے گا—جو بظاہر تیل کے بدلے میں فراہم کیے جائیں گے—اس وقت آیا جب اسرائیلی فضائی حملوں نے اس کی دفاعی صلاحیت کو شدید نقصان پہنچایا۔ چین کی صنعتی صلاحیت کی بدولت فوری ترسیل ممکن ہو سکی ہے، اور اب تہران اپنے اہم بنیادی ڈھانچے، بشمول مزائل لانچ سائٹس، کو بہتر طور پر محفوظ بنا سکتا ہے۔ یہ اقدام ایران کے بیجنگ اور ماسکو کی طرف جھکاؤ کو ظاہر کرتا ہے، کیونکہ مغربی پابندیاں اور امریکی دشمنی نے اس کے دیگر راستے محدود کر دیے ہیں۔

### *امریکہ اور اسرائیل کی کمزوریاں بے نقاب*
اس بحث میں امریکی اتحادوں کی سب سے بڑی کمزوری یعنی سپلائی چین کے مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ امریکہ یوکرین کے لیے بھی کافی پیٹریاٹ میزائل فراہم کرنے سے قاصر ہے، چہ جائیکہ وہ بیک وقت روس، ایران اور چین سے محاذ آرائی کرے۔ اسرائیل کو بھی حالیہ حماس اور حزب اللہ کے ساتھ جھڑپوں کے بعد اپنے انٹرسیپٹر ذخائر کی کمی کا سامنا ہے۔ اس کے برعکس، چین کی نایاب ارضی عناصر (rare earth elements) پر اجارہ داری، جو جدید اسلحے کے لیے لازم ہیں، مغربی عسکری پیداوار کے لیے طویل المدتی خطرہ بن چکی ہے، خاص طور پر جب بیجنگ نے ان کے برآمدی ضوابط کو مزید سخت کر دیا ہے۔

### *کثیر قطبی اتحادوں میں نیا تقسیم کار نظام*
امریکہ کے برعکس، جو ہتھیاروں کی فروخت کے ساتھ سیاسی شرائط بھی منسلک کرتا ہے، چین کا "بے شرائط” ماڈل شراکت داری کو مضبوط بناتا ہے۔ ایران کا مہنگے لڑاکا طیاروں کے بجائے مؤثر اور کم قیمت فضائی دفاعی نظام پر توجہ دینا ایک عملی حکمت عملی ہے، جو ایک تھکا دینے والی جنگی صورتحال کے تجربے سے اخذ شدہ ہے۔ اگرچہ روس یوکرین میں مصروف ہے، وہ اب بھی ایران کا اہم پارٹنر ہے، لیکن چین کی مرکزی اسلحہ سپلائر حیثیت ایک وسیع تر ازسرنو صف بندی کی علامت ہے۔

### *تاریخی تسلسل اور مستقبل کی جنگیں*
صدیوں پر محیط چین-ایران تعلقات اس جدید پارٹنرشپ کو ایک گہرائی فراہم کرتے ہیں، جو امریکی اتحادوں کی سطحی اور کاروباری نوعیت سے بالکل مختلف ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق مستقبل کی جنگیں تیز فتح کے بجائے صبر آزما مقابلے ہوں گی—ایسی صورتحال میں چین کی صنعتی طاقت اور ایران کی مزاحمتی حکمت عملی مغربی دباؤ کا مقابلہ کرنے میں برتری حاصل کر سکتی ہے۔

### *نتیجہ: کثیر قطبی دنیا کی ناقابلِ روک پیش قدمی*
چینی دفاعی نظام کے ساتھ ایران کی مسلح سازی صرف ایک تکنیکی اپ گریڈ نہیں، بلکہ یہ یک قطبی نظام کے زوال کی علامت ہے۔ امریکہ کی حد سے بڑھی ہوئی عسکری مداخلت اور کمزور ہوتی سپلائی چینز کے باعث طاقت کا توازن بدل رہا ہے۔ امریکی غلبے کا دور بتدریج اختتام پذیر ہے اور اب بیجنگ، ماسکو اور علاقائی طاقتیں جیسے ایران، اپنے اپنے اثرورسوخ کے علاقے قائم کر رہی ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ کثیر قطبی تبدیلی ہوگی یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ واشنگٹن اسے کتنی شدت سے روکنے کی کوشش کرے گا۔

*آخری خیال:*
جب امریکہ اپنے مخالفین کو قابو میں لانے کی کوشش میں مصروف ہے، تو اس کا سب سے بڑا دشمن شاید چین یا ایران نہیں، بلکہ اس کا اپنا حد سے بڑھی ہوئی عسکریت پسندی اور زوال پذیر صنعتی ڈھانچہ ہے۔

Shares: