"آج کے دن میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو بطورِ دین پسند کر لیا۔”(سورہ المائدہ:3)
دین مکمل، شریعت کا ہر حکم مکمل، قانونِ الٰہی مکمل، بنوت مکمل، رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر آ کر ختم الانبیاء کی مہر لگ گئی تو نبوت بھی مکمل ہو گئی۔ اب جو دین اسلام میں نئی بات گھڑے گا نیا قانون لائے گا وہ جھنمی ہو گا۔
سیدنا جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ: رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:” سب سے بہترین بات اللّٰہ کی کتاب ہے، سب سے بہترین ہدایت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے اور سب سے بد ترین کام دین میں نئے امور (بدعت) ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے "(صحیح مسلم:867)
اللّٰہ رب العزت نے ہم سب کو آزاد پیدا کیا ہے خواہ وہ مرد ہے یا عورت، ہم سب اللّٰہ کے غلام ہیں اس کے بندے ہیں۔ مرد عورت کا قوام ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے قوام ہوتا کیا ہے؟ قوام کا مطلب حاکم ہرگز نہیں ہے بلکہ قوام وہ ہوتا ہے جو خاندان کی ذمہ داریاں اٹھاتا ہے۔ جو معاشی طور پر گھر اور گھر والوں کا خیال رکھتا ہے۔ یہ ذمہ داری اللّٰہ نے مرد پر ڈالی ہے۔ وہ جذباتی طور پر مضبوط ہوتا ہے اس لیے عورت کا خیال رکھنے والا ہوتا ہے۔ اللہ نے اس کو ایک درجہ بلند رکھا اس لیے کہ وہ ہر اچھے برے حالات میں اپنے خاندان کا محافظ ہوتا ہے لیکن ہوا کیا؟ آج کے مرد نے قوام کا مطلب خود کو عورت کا مالک سمجھ لیا ہے جب کہ مالک تو اللّٰہ سبحان و تعالیٰ ہے کیونکہ جو خالق ہوتا ہے ملکیت بھی اسی کی ہوتی ہے۔ کوئی انسان کسی انسان کے اوپر اپنی ملکیت نہیں رکھتا۔ ہر انسان کی پیدائش اس دنیا میں انفرادی طور پر ہوئی اس کی خوبیاں اس کی خامیاں اسی انسان کی ذاتی ہوتی ہیں۔ ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ کوئی جان کسی جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی پھر ہم ہر کسی کے اعمال کے ٹھیکدار کیوں بن جاتے ہیں؟ سوشل میڈیا کے دور میں کتنا آسان ہو گیا ہے نا کسی کو بھی جنتی یا جھنمی قرار دینا۔ ایسا لگتا ہے ہر شخص دوسرے کے اعمال کا ذمہ دار بن گیا ہے۔ شریعت کے قانون کے مطابق انسان کا اختیار نہیں کہ وہ کسی کو جنتی یا جھنمی کہے لیکن ہم سب تو اتنے دیندار بن گئے ہیں کہ باقی سب کو بے دین تصور کرنے لگے ہیں۔ کئی جگہوں پر دیکھا جا سکتا ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں عورت اپنے گھر کے مردوں سے بھی محفوظ نہیں، اسے آزادی رائے نہیں وہ اپنا موقف کسی کے سامنے رکھنے کی جرات نہیں کر سکتی۔ آئیے لمحے بھر کو اس ماضی میں چلتے ہیں۔
جہاں درحقیقت عورت کو کوئی مقام حاصل نہ تھا۔
جہاں اسے رائے کی آزادی نہ تھی۔
جہاں شوہر اپنی بیوی کو نہ بساتے تھے نہ آزاد کرتے تھے۔
جہاں بیٹی کی پیدائش پر والد منہ چھپاتا پھرتا تھا۔
جہاں عورت کو صرف تفریح کا سامان سمجھا جاتا تھا۔
جہاں عورت کے بیوہ ہونے پر اس کے لیے زندگی کے دروازے بند کر دیئے جاتے تھے۔
جہاں بغیر نکاح کے ایک مرد کئی عورتوں کو اپنے ساتھ رکھنے کا اختیار رکھتا تھا۔
جہاں عورت کی کوئی مرضی نہ تھی۔
جہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ناجانے کیا کیا ظلم ہوتے تھے عورت پر۔۔
پھر حرا سے ایک روشنی پھوٹتی ہے ایک پاکیزہ فرشتہ دنیا کے سب سے پاکیزہ انسان کے پاس آتا ہے اور اس کا سینہ بھینچتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ رب نے اسے اپنا رسول چن لیا ہے۔ اب دین اسلام کی برکات سے سب انسانوں کو ان کا حق ملے گا۔ اب کوئی کسی کا غلام نہ رہے گا سب انسان آزاد ہیں وہ صرف خالق و مالک کے غلام ہوں گے۔ آج کی ماڈرن عورت کیا جانے آزادی کیا ہوتی ہے؟ آزادی تو وہ تھی جو بریرہ کو ملی تھی۔ یہ اس دور کی بات ہے۔
جہاں عورت کو تعلیم دینے کا حق نہیں تھا۔
جہاں بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ زمین میں گاڑ دیا جاتا تھا۔
جہاں اسے وراثت سے دستبردار کر دیا جاتا تھا۔
جہاں اپنی پسند اور مرضی سے نکاح کرنے کا کوئی تصور نہ تھا۔
لیکن دین اسلام نے آتے ہی عورت کو وہ سب حقوق دیے جس نے اسے معاشرے میں ایک الگ حیثیت سے روشناس کروایا۔
صفحہ زیست میں ماضی کے دریچوں سے گزریں تو یہ کہانی یوں تو بہت پرانی لگتی ہے لیکن اپنے آپ میں ایک جدت لیے ہوئے ہے۔ یہ کہانی ہے ایک محبت کرنے والی خوشحال شادی شدہ جوڑے کی۔ یہ کہانی ہے ایک غلام اور ایک لونڈی کی۔ پتہ ہے غلام اور لونڈی کا کیا تصور ہے اسلام میں؟ جی ہاں! جن کی نہ کوئی مرضی ہوتی تھی نہ رائے نہ پسند یہاں تک کہ وہ سانس لینے میں بھی مالک کی اجازت کے مختاج ہوتے تھے۔ یہ کہانی ایک ایسی لڑکی کی ہے جو ایک دن غلامی کی زندگی سے آزاد ہو گئی اسے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھا نے آزاد کر دیا۔ آزادی کا حمار کیا ہوتا ہے کوئی اس وقت بریرہ سے پوچھتا۔ آج کی ماڈرن عورت کیا جانے آزادی کیا ہوتی ہے؟
آج کی ماڈرن عورت دوپٹے سے آزادی کو آزادی تصور کرتی ہے۔ کھلے بالوں کو آزادی تصور کرتی ہے۔ گھر کے باہر در در بھٹکنے کو آزادی تصور کرتی ہے لیکن حقیقی آزادی تو وہ تھی جو بریرہ کے پاس تھی۔اسلام کے مطابق ایک غلام اور ایک آزاد اگر چاہیں تو نکاح قائم رکھ سکتے ہیں ورنہ جو آزاد فریق کی مرضی ہو وہی ہو گا۔ بریرہ کو آزادی اتنی پسند آئی کہ وہ دل و جان سے محبت کرنے والے شوہر کی محبت کو فراموش کر گئی۔ وہ اپنی رائے میں، اپنے فیصلوں میں آزاد ہو گئی۔ محبت کرنے والا مغیث گلیوں، بازاروں میں روتا پھرتا تھا۔ وہ ہر ایک سے کہتا پھرتا تھا ایک بار بریرہ کو منا دو، وہ روتا تھا بریرہ ایک بار تو مجھ سے بات کر لے۔ سب سے سفارش کرتے کرتے وہ اپنی سفارش لے کر رحمت العالمین کے دربار میں پہنچ گیا وہ رسول جو دو جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے مغیث کو یقین تھا وہ میرے لیے بھی رحمت والا فیصلہ کریں گے۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مغیث کی بات سنی اس کی تکلیف اور دکھ کو محسوس کرتے ہوئے بریرہ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ بریرہ دربار رسالت میں پیش ہوتی ہے۔ وہ اب ایک آزاد عورت تھی وہ جانتی تھی۔
وہ صرف رب کی غلام ہے۔ رب کے احکامات کی غلام ہے۔
وہ صرف خود آزاد نہیں تھی بلکہ اس کی سوچ بھی آزاد تھی۔
وہ اپنے حقوق و فرائض کے بارے میں آگاہ تھی جو دین اسلام نے ایک آزاد عورت کو عطا کیے تھے۔
وہ پہلے غلام تھی مگر اب نہیں تھی۔
وہ اپنی رائے اپنے فیصلوں میں آزاد تھی۔
وہ جانتی تھی اب وہ کسی انسان کی غلام نہیں صرف رب کی غلام تھی۔
دربار رسالت لگا ہوا تھا۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بریرہ کاش تم مغیث کے پاس لوٹ جاتیں۔” مغیث اپنی محبت بھری خوبصورت زندگی کے بارے میں سوچتے ہوئے بریرہ کے جواب کا منتظر تھا۔ شاید اس وقت مغیث کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی ہو گی ضرور اس نے رب کی بارگاہ میں دعا کی ہو گی مگر بریرہ جو آزادی کا مزہ چکھ چکی تھی وہ ایک غلام شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی۔ وہ دنیا جیت لینا چاہتی تھی وہ اپنے خوابوں کو پورا کرنا چاہتی تھی وہ جانتی تھی زندگی ایک بار ملی ہے اسے غلامی کی نظر نہیں کرنا۔ وہ آزادی کی نعمت کو سمجھ چکی تھی۔ روشن خیال اپنے حقوق کو پہچاننے والی بریرہ نے رسول اللّٰہ کی مجلس میں ان کی بات قبول نہیں کی بلکہ الٹا اپنا موقف رکھ ڈالا۔
"اے اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم یہ آپ کا حکم ہے یا سفارش؟ اگر حکم ہے تو مان لوں گی کیونکہ بخثیت مسلمان مجھ پر آپ کی اطاعت فرض ہے لیکن اگر سفارش ہے تو نہیں مانوں گی کیونکہ میری زندگی کے بارے میں مجھے رب نے اختیار دیا ہے۔” کیسا مکالمہ چل رہا تھا سرور دو عالم اور ایک عام مسلمان خاتون کے درمیان۔ کیا آج کوئی بیٹی اپنے والد کے سامنے اپنی رائے دے سکتی ہے؟ جی ہاں! دے تو سکتی ہے مگر ایسی آزادی بہت کم بیٹیوں کو میسر ہے۔
"رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:” میں صرف سفارش کر رہا ہوں۔” بریرہ کا جواب آتا ہے۔ "پھر مجھے مغیث کے پاس رہنے کی خواہش نہیں ہے۔”(صحیح بخارہ:5283)
میں آزاد فضاؤں میں اڑنا چاہتی ہوں، اپنی مرضی سے سانس لینا چاہتی ہوں، اپنی اڑان بھرنا چاہتی ہوں۔ اللہ کی دی ہوئی آزاد زندگی کو صرف اللہ کی غلامی میں گزارنا چاہتی ہوں مجھے کسی انسان کی غلامی قبول نہیں اور مغیث غلام ہے میں اب اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔
کیا آج کی لبرل عورت کبھی ایسا سوچ سکتی ہے؟ یہ وہی عورت سوچ سکتی ہے جس نے اپنی زندگی کو دین اسلام کے سانچے میں ڈھال لیا ہو۔ بریرہ کی اس بات نے کتنی خواتین کے لیے نئی سوچ کے در کھولے ہیں۔ عورت تب آزاد ہو گی جب وہ خود کو رب کے احکامات کی قید میں رکھے گی۔ بریرہ تو غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہو گئی۔ آج اس کہانی کو گزرے صدیاں بیت گئیں سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ کیا آج کی عورت آزاد ہے؟ اپنی گفتار میں، اپنے فیصلوں میں، اپنی سوچ میں، اپنی رائے دینے میں، اپنی پسند سے نکاح کرنے میں؟؟؟ سوچتے رہیے۔۔۔۔۔۔۔مثبت رہیے دوسروں کی زندگیوں میں آسانیاں بانٹتے رہیے۔ اللہ پاک آپ کی زندگی کو آسانیوں سے بھر دے۔ آمین!