اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں؟؟؟ — نعمان سلطان

ہم پاکستانی بھی عجیب لوگ ہیں. رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کے فیوض و برکات سمیٹنے کے لئے ماہ مقدس میں پکے مسلمان بن جاتے ہیں اور رب کو عبادات کے ذریعے منانے کی اور اپنے گناہ بخشوانے کی کوشش کرتے ہیں. ربیع الاول میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اتنا ڈوب جاتے ہیں کہ در و دیوار، گلی محلوں بازاروں کو سجا کر اور ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محفلیں سجا اور لوگوں میں نیاز تقسیم کر کے اپنی عقیدت و محبت کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں.

محرم میں غم حسین رضی اللہ عنہ میں اتنے سوگوار ہوتے ہیں کہ ان دنوں میں خوشیوں کی تقریبات کو ملتوی کر دیتے ہیں لوگ محبت حسین رضی اللہ عنہ میں اور قاتلین کربلا سے نفرت میں مجالس منعقد کرتے ہیں نوحے و مرثیے پڑھے جاتے ہیں.ماتمی جلوس نکال کر اور سینہ کوبی کر کے یزیدی لشکر کی مذمت کی جاتی ہے مظلوم کربلا کے سوگ میں کالے کپڑے پہن کر اپنے غم کا اظہار کیا جاتا ہے.

محرم میں پانی کی سبیلیں لگا کر اور لنگر حسینی رضی اللہ عنہ تقسیم کر کے قاتلین کربلا کے اس عمل سے اپنی نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے جب انہوں نے کربلا کے مسافروں پر کھانا اور پانی بند کیا.

اسی طرح اگست کے مہینے میں قومی یکجہتی کے اظہار کے لئے اور ایک الگ وطن حاصل کرنے کی خوشی میں گھروں پر اور عمارتوں پر قومی پرچم لہرائے جاتے ہیں. گلی محلوں میں ملی نغموں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں گھروں کو جھنڈیوں سے سجایا جاتا ہے عمارتوں پر لائٹنگ کی جاتی ہیں اور ریلیاں نکال کر اپنی خوشی کا عملی نمونہ پیش کیا جاتا ہے.

لیکن ہوتا کیا ہے ہماری عبادات صرف رمضان المبارک، عشق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح اظہار صرف ربیع الاول میں، مظلوم کربلا سے اظہار یکجہتی صرف محرم میں اور حب الوطنی کے جذبات صرف اگست میں بیدار ہوتے ہیں. کیا ان مہینوں کے علاوہ ہم مسلمان، عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم، عاشق حسین رضی اللہ عنہ اور محب وطن نہیں ہیں.

آئیں ہم آج کے بعد مخصوص مہینے کے لئے نہیں بلکہ پوری زندگی کے لئے مسلمان اور محب وطن بن جائیں اگست کا مہینہ ہے تو ہم اپنی ابتدا اسی مہینے سے کرتے ہیں ہم اپنی خود احتسابی کرتے ہیں کیا یہ ملک کسی مخصوص فرقے کے لئے حاصل کیا گیا یا مسلمانوں کے لئے، اگر مسلمانوں کے لئے حاصل کیا گیا تو ہم نے دیگر فرقوں کے مسلمانوں کے لئے اس ملک کو جہنم کیوں بنا دیا.

قائد اعظم نے واضح الفاظ میں کہا کہ ہم مسلمانوں کے لئے اس علیحدہ خطے کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں وہ اپنے مذہب کے مطابق آزادی سےزندگی گزار سکیں لیکن افسوس آج ہم اپنے قائد کے فرمان کو بھول کر سیاسی، نسلی، لسانی تعصبات کا شکار ہو گئے فرقہ بندیوں میں پڑ گئے جس قوم نے مضبوط ہو کر دیگر مظلوم مسلمان اقوام کی مدد کرنی تھی وہ آج خود مدد کے لئے غیر مسلم حکومتوں کی طرف دیکھ رہی ہے.

اس سب کی وجہ صرف فرقہ واریت اور عدم برداشت ہے ہم جب تک فرقہ واریت سے پاک رہے ہماری ترقی کی رفتار قابل رشک تھی دنیا کی دیگر اقوام ہمیں رشک سے دیکھتی تھیں لیکن پھر ہم نے آپس کی محبت ختم کر دی اور اپنا اتحاد ختم کر کے ٹکڑوں میں بٹ گئے آج یہ حالت ہے کہ ہم نے جن سے آزادی حاصل کی اب انہی کے ملک میں جانا اور وہاں اپنے خاندان سمیت مستقل رہائش اختیار کرنا ہماری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے.

ہم زبان سے تو کہتے ہیں کہ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ایک ہیں لیکن ہم عملی طور پر اس پرچم کے سائے تلے ایک نہیں ہیں. ہمیں ایک ہونے کے لئے اپنے دلوں میں سے ہر قسم کے تعصبات کو ختم کرنا ہوگا. ہمیں ایک دوسرے کی نیک نیتی پر یقین کرنا ہو گا ہمیں اس طرح آپس میں متحد ہونا پڑے گا جیسے 1947 میں تمام مسلمان قائد اعظم کی قیادت میں فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر متحد تھے.

بڑے بڑے علماء کرام نے اس حقیقت کو تسلیم کر کے کہ حقیقی آزادی قائد اعظم کی قیادت میں ملے گی آپ کو اپنا راہنما تسلیم کیا اور مساجد اور ممبر رسول سے لوگوں کو آپ کی قیادت پر متفق کیا. اسی جذبے کی ہمیں آج ضرورت ہے تاکہ ہم دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ سکیں کہ "اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں”

Comments are closed.