نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری کے ہمراہ وزارت خارجہ میں اہم پریس کانفرنس کررہے ہیں۔
پریس کانفرنس کے آغاز پر وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ نیوز کانفرنس کا مقصد سب کو آگاہ کرنا ہے، واقعے کے بعد بھارت نے غیر ذمہ دارانہ اور جارحانہ رویہ اختیار کیا اسلام میں واضح احکامات ہیں کہ ایک انسان کا قتل سارے عالم کا قتل ہے، پہلگام میں معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے کے عمل کی پہلے بھی مذمت کی اور اب بھی کررہے ہیں پاکستان بھارت کی اسپانسرڈ دہشت گردی کا شکار ہے، ہم نے بھارتی اقدامات کے بعد مختلف ممالک سے رابطے کر کے دنیا کو صورت حال سے آگاہ کیا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ بھارت پاکستان اور دیگر ممالک میں دہشتگردی اور خونریزی پر خوشیاں مناتا ہے، دہشتگردی کی جنگ میں 150 ارب ڈالرز اور ہزاروں جانوں کا نقصان کرچکے ہیں ہماری بہادر ایجنسیز اور شہریوں نے امن کیلئے قربانیاں دیں۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ بھارت مسلسل الزام تراشی کر رہا ہے، پہلی بار نہیں ہوا کہ بھارت نے یہ ہرزہ سرائی کی ہو، بھارت کشمیریوں کے حقوق، سیکیورٹی ناکامی سے توجہ ہٹانے کی ہمیشہ کوشش کرتا رہا ہے، بھارت دہائیوں سے ریاست دہشتگردی کر رہا ہے، اندرونی مسائل حل کرنے کے بجائے دوسرے ممالک پر انگلیاں اٹھاتا ہے، کشمیریوں پر مظالم کیلئے ڈریکولین قوانین لاگو کیے۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ 5 اگست کا اقدام یو این سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے منافی ہیں، بھارت بتائے کہ یہ واقعات ہمیشہ اعلی سطح کےدوروں پر ہی کیوں ہوتے ہیں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی بین الاقوامی برادری کیلئےباعث تشویش ہونا چاہئے، کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کے خلاف اسلام و فوبیا کا استعمال ہو رہا ہے۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ تہلگام حملے کے بعد بغیر ثبوت کو الزام دھر دیا گیا، تہلگام واقعے سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ اس کی شفاف تحقیقات کی جائیں، ہم ٹی او آرز میں ہر ممکن تعاون کریں گے، بھارت اچانک یہ صورتحال کیوں پیدا کررہا ہے، مقصد کیا ہے، سندھ طاس معاہدہ کی منسوخی غیر قانونی ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ مشاورت کے بغیر منسوخ نہیں ہوسکتا، یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ بھارت کو بین الاقوامی برادری کی کوئی پرواہ نہیں، قومی سلامتی کی کمیٹی نے واضح کیا کہ پانی روکنا جنگ سمجھا جائے گا، پاکستان خطے کے امن اور استحکام کا خواہشمند ہے کوئی حرکت ہوئی تو اپنے ملک کی سالمیت کا دفاع کریں گے، ہمیں اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے جن ممالک سے بات کی انہوں نے تحمل کی تلقین کی، پاکستان کبھی پہل نہیں کرے گا، لیکن بھارت نے کوئی حرکت کی تو سخت جواب دیں گے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ کچھ سوالوں کے جواب ضروری ہیں، کیا یہ ایسے وقت نہیں ہو رہا جب بھارت پر مختلف ممالک میں قتل کے الزامات ہیں، ہماری مسلح افواج چوکنا ہیں، ہم اپنے وقت اور مرضی کی جگہ پر وار کریں گے، کیا یہ وقت نہیں کہ پاکستان سمیت دنیا میں بھارت کی جانب سے شہریوں کے قتل کا احتساب کیا جائے؟ کیا یہ اہم نہیں کہ پہلگام میں متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی اور بھارت کی جارحیت میں تفریق کی جائے؟ کیا ایسا نہیں کہ بھارت ایک ملک پر فوجی حملےکے لیے پراپیگنڈا کر رہا ہے؟ کیا بھارت کی جانب سے عالمی قوانین کا احترام نہ کرنے سےخطےکی صورتحال خراب نہیں ہوگی؟ کیا یہ وقت نہیں کہ عالمی برادری مذہبی نفرت انگیزی اور اسلاموفوبیا پربھارت کی مذمت کرے؟ کیا ہم آگاہ ہیں کہ بھارت کی جارحانہ سوچ سے خطے میں ایٹمی طاقتوں کا ٹکراؤ خطرناک ہوسکتا ہے؟
بھارتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھارتی ایجنسیز کنڑول کر رہی ہیں، ترجمان دفتر خارجہ
ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا ہے کہ پہلگام ایل او سی سے 230 کلو میٹردور ہے، یہ علاقہ پہاڑی ہے، ایف آئی آر 10 منٹ کے اندر درج کرائی گئی، 8 دن ہوگئے، نہ حملہ آوروں کا کچھ بتایا، نہ ثبوت دیئے، بھارتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھارتی ایجنسیز کنڑول کر رہی ہیں، واقعہ کے فوری بعد پاکستان پر الزام لگا دیا گیاجائے وقوعہ سے پولیس اسٹیشن جانے میں کم از کم 30 منٹ لگتے ہیں، سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی جلدی ایف آئی آر کیسے درج ہو گئی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ اندھا دھند فائرنگ کی، جبکہ بیانیہ بنایا گیا کہ مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا گیا، ڈی جی آئی ایس پی آر
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ حقیقت پر بات کریں، الزام ہے کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والوں نے حملہ کیا، یہ ناہموار اور پہاڑی علاقہ ہے، جائے وقوعہ سے پولیس اسٹیشن جانے میں 30 منٹ لگتے ہیں، کیسے ممکن ہے کہ پولیس جائے وقوعہ پہنچی اور پھر پولیس اسٹیشن واپس آکر ایف آئی آر درج کر لی، ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا کہ ہینڈلرز سرحد پار سے آئے، ایف آئی آر میں کہا گیا کہ اندھا دھند فائرنگ کی، جبکہ بیانیہ بنایا گیا کہ مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا گیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بھارتی بیانیہ یہ ہےکہ یہ دہشت گردی کا واقعہ ہے،کہا جا رہا ہےکہ مسلمانوں نے فائرنگ کی،کہا جارہا ہےکہ ہندوؤں پر فائرنگ کی گئی، بھارت کی جانب سے یہ بیانیہ کیوں چلایا جا رہا ہے؟ وزیراعظم نے بھی بھارتی بیانیے پر سوال اٹھایا ہے، ہمارا مؤقف واضح ہےکہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا کی طرف سے کہا جارہا ہےکہ پاکستانی ایجنسیوں نے یہ واقعہ کرایا، بھارتی الزامات واقعےکے چند منٹ بعد ہی سامنے آنا شروع ہوگئے، زپ لائن آپریٹر کی ویڈیو کو بنیاد بنا کر جھوٹا بیانیہ بنایا گیا ، بھارتی میڈیا نے واقعےکے فوری بعد پاکستان کے خلاف الزام تراشی شروع کی-
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جن بھارتی اکاؤنٹس سے پہلگام حملے کو رپورٹ ہوئیں، ان میں سے ایک اکاؤنٹ میں لکھا گیا کہ کل ایک بڑا دن ہے اس لیے جلدی سو رہا ہوں، فتنہ الخواج کے حملے سے پہلے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی، لکھا گیا گڈ مارننگ میانوالی، جعفرایکسپریس حملے سے پہلے بھی اسی اکاؤنٹ سے پوسٹ ہوئی، لکھا گیا پاکستان میں آج اور کل نظریں رکھو۔
پریس کانفرنس کے دوران بھارتی میڈیا کے وہ کلپس دکھائے گئے جن میں خود بھارتی شہریوں نے پہلگام حملے پر حکومت، فوج اور سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سنگین سوالات اٹھائے۔
ویڈیو کلپ میں ایک شہری کہتا دکھائی دیا کہ یہاں دس لاکھ سے زیادہ بھارتی فوج قابض ہے، اگر ہم کوئی پوسٹ سوشل میڈیا پر شیئر کریں تو ہمیں راتوں رات اٹھا لیا جاتا ہے، شہری نے سوال کیا کہ اگر اتنی بڑی تعداد میں فوج موجود ہے تو وہ کیا کر رہی ہے، کیا وہ جھک مار رہی ہے؟ جہاں حملہ ہوا وہاں فوج کیوں نہیں تھی، اور وہاں موجود افراد کو بچانے کے لیے سیکیورٹی فورسز کہاں تھیں؟
ایک اور شہری نے براہِ راست سوال کیا کہ ”پہلگام کی ذمے داری کس کی ہے؟ کیا یہ حکومت کی ناکامی نہیں؟“ اس نے کہا کہ ”27 لوگوں کی جان گئی، وہاں سیکیورٹی کیوں نہیں تھی؟“
کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”پہلگام پر اتنا بڑا حملہ ہوا اور کسی کو کچھ پتا ہی نہیں چلا“ اسی دوران ایک اور فرد نے نشاندہی کی کہ پورے علاقے میں قدم قدم پر فوج تعینات ہے، اگر یہ واقعی بارڈر کے قریب تھا تو حملہ آور کہاں سے آئے؟ اور واپس کیسے گئے؟“ یہ چھوٹا سا علاقہ ہے، جہاں گاڑی بھی نہیں جا سکتی، اور سیکیورٹی اتنی سخت ہے کہ پیدل چلنا بھی مشکل ہوتا ہے، پھر حملہ آور وہاں کیسے پہنچے؟“
پریس کانفرنس کے دوران ایک شہری کا بیان بھی سنایا گیا کہ ”کہیں نہ کہیں ہماری اپنی ایجنسی ہی یہ حملے کرواتی ہے“ دوسرے شہری نے کہا کہ کافی لوگوں کو نہیں معلوم کہ پہلگام کہاں ہے، امرناتھ کہاں ہے، چندن واڑی کہاں ہے خاتون نے کہا کہ آج اتنے دن ہو گئے ملک کے رہنما کہاں ہیں؟ وہ یہاں کیوں نہیں آئے یہ لوگ کیا سرکار اور کیا ڈیفینس منسٹری چلائے رہے ہیں ان سے اب تک حملہ آر پکڑے نہیں گئے ہیں۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ پہلگام واقعےکو سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے دہشت گردی کے واقعات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا بھارت کا وتیرہ ہے، بھارت پچاس سال سے اسی ڈگر پر چل رہا ہے، پاکستان پر الزام لگاؤ، کریڈٹ لو اور الیکشن جیتو، یہ ہے ان کا مقصد۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ بھارت کی جیلوں میں سیکڑوں پاکستانی غیرقانونی قید ہیں، بھارت ان قید پاکستانیوں کو جعلی مقابلوں میں استعمال کر رہا ہے، اوڑی میں محمد فاروق کو جعلی مقابلے میں شہید کردیا گیا، بھارتی فوج نے اس کو درانداز کہا، درحقیقت وہ معصوم شہری تھا، بھارت بے گناہ لوگوں کو درانداز کا الزام لگا کر مار رہا ہے، بھارت خود ایک دہشت گرد ریاست ہے، پاکستانی اور کشمیری شہریوں کو بھارت کی جیلوں میں رکھا ہوا ہے، بھارت ان قیدیوں پر تشدد کرتا ہے اور ان کے بیان دلواتا ہے۔
گزشتہ روز بھی ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے اہم پریس بریفنگ کی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا بھارت پاکستان میں دہشت گردی کرنے اور ٹیرر فنانسنگ میں ملوث ہے –
واضح رہے کہ بھارت نے 22 اپریل مقبوضہ کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے پہلگام میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد سندھ طاس معاہدہ فوری طور پر معطل کرنے اور اس حملے کا واضح اور بھرپور جواب دینے کا اعلان کیا تھا۔
بھارت نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کو جواز بناتے ہوئے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے علاوہ پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹے میں بھارت چھوڑنے کا حکم دیا تھا جبکہ واہگہ بارڈرکی بندش اور اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن میں تعینات اپنے ملٹری اتاشی کو وطن واپس بلانے کے علاوہ پاکستان میں تعینات سفارتی عملے کی تعداد میں بھی کمی کردی تھی۔
بھارتی اشتعال انگیزی کے خلاف منعقدہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پاکستان نے شملہ سمیت تمام دوطرفہ معاہدوں کی معطلی کا عندیہ دیتے ہوئے بھارت کے لیے فضائی حدود، سرحدی آمد و رفت اور ہر قسم کی تجارت بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔
سلامتی کمیٹی نے جوابی اقدام کے طور پر بھارتی ہائی کمیشن میں سفارتی عملے کو 30 ارکان تک محدود کرنے کے علاوہ بھارتی دفاعی، بحری اور فضائی مشیروں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا تھا جبکہ سکھ یاتریوں کے علاوہ تمام بھارتی شہریوں کے ویزے منسوخ کرکے انہیں 48 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔