مسیحا جب سے بیوپاری ہوئے ہیں
سبھی جذبے یہاں آری ہوئے ہیں
شعبہ صحت کی زبوں حالی اور اس میں اصلاحات لانے کی راہ میں حائل رکاوٹیں ایک ایسا موضوع ہے جس پر برسوں سے بحث ہو رہی ہے، لیکن نتیجہ وہی "ڈھاک کے تین پات” والا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر زمین پر اللہ کا وہ سایہ ہے جو انسانیت کو تکلیف سے نجات دلاتا ہے، اسی لیے اسے "مسیحا” کا لقب دیا گیا۔ مگر افسوس کہ آج کے سرکاری ہسپتالوں میں یہ لقب اپنی معنویت کھوتا جا رہا ہے۔ ہماری میڈیکل یونیورسٹیوں نے صرف "پیشہ ور” پیدا کیے ہیں، "انسان دوست” نہیں۔ ایسے ڈگری ہولڈر ڈاکٹر جن میں تربیت کی کمی ہے انکے لہجے کی تلخی غریب مریض کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک پاشی کا کام کرتی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کی زبوں حالی اور انتظامی خرابیوں پر جب بھی بات ہوتی ہے، تو اکثر سارا ملبہ تمام ڈاکٹروں پر گرا دیا جاتا ہے۔ بے شک، چند کالی بھیڑوں اور ہتک آمیز رویہ رکھنے والے ڈاکٹروں کی وجہ سے پورا شعبہ بدنام ہے، لیکن حقیقت کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اسی نظام میں ایسے "ولی کامل” ڈاکٹرز بھی موجود ہیں جن کا وجود انسانیت کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی غریب مریض کو سب سے پہلے جس چیز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ "علاج” نہیں بلکہ "تضحیک” ہے۔ مریضوں کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آنا اور لواحقین کو حقارت کی نظر سے دیکھنا اور مریضوں کو بلاجواز بڑے شہروں میں ریفر کرنا اب ایک "معمول” بن چکا ہے جو ان کی مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بنتا ہے۔ جب تک سرکاری افسران اور سیاسی اشرافیہ خود ان ہسپتالوں میں علاج نہیں کرائیں گے، تب تک عام آدمی کی تضحیک کا یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔ بلاشبہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اقتدار سنبھالتے ہی شعبہ صحت میں انقلابی اصلاحات کا عزم ظاہر کیا۔ عوام کو علاج معالجے کی جدید سہولیات باہم پہنچانا "فیلڈ ہسپتال” اور "کلینک آن ویلز” جیسے منصوبے اسی ویژن کا حصہ تھے تاکہ غریب کو اس کی دہلیز پر علاج مل سکے۔ تاہم، زمینی حقیقت یہ ہے کہ سی ایم کے ویژن کو "ہائر اتھارٹی” کے ایوانوں میں بیٹھے چند افسران اور بااثر مافیا سبوتاز کر رہا ہے۔ جب تک اوپر بیٹھی بیوروکریسی اور ہسپتالوں کی انتظامیہ مخلص نہیں ہوگی، سی ایم کے احکامات صرف فائلوں کی زینت بنے رہیں گے۔ پنجاب کے شعبہ صحت میں اصلاحات لانا اس لیے بھی مشکل بنا دیا گیا ہے کہ ہائر اتھارٹی میں موجود بعض کالی بھیڑیں (Status Quo) برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال تب تک نہیں بدلے گی جب تک "احتساب کا عمل” بلا امتیاز شروع نہیں ہوتا۔ اگر کسی ڈاکٹر یا پیرا میڈیکل اسٹاف کی غفلت سے جان چلی جائے تو انکوائری کمیٹیوں کا قیام محض "وقت گزاری” کا حربہ ہوتا ہے۔ ان کمیٹیوں کی رپورٹس کبھی منظرِ عام پر نہیں آتیں اور نہ ہی کبھی کسی طاقتور کو سزا دی جاتی ہے۔ صرف اعلیٰ حکام کے ہنگامی دوروں اور معطلیوں سے کام نہیں چلے گا، بلکہ ایک ایسا خودکار نظام درکار ہے جہاں مریض کی شکایت پر فوری اور شفاف کارروائی ہو۔
ہیپاٹائٹس سی ورٹیکل پروگرام کے بیشتر ڈاکٹرز کمیشن اور مراعات کے چکر میں مریض کو طاقت کی دوائی کے نام پر "ٹھیکے کی وہ ادویات” جن کے فارمولے سے عام آدمی تو دور فارماسسٹ بھی ناواقف ہوتے ہیں جسکے غیر معیاری ہونے کے خدشات ہمیشہ برقرار رہتے ہیں لکھ کر دیتے ہیں تو جب ایک غریب مریض اپنی جمع پونجی نکال کر باہر سے وہ مخصوص دوا خریدتا ہے اور اسے آرام نہیں آتا، تو یہ صرف دوا کی ناکامی نہیں بلکہ پورے انسانیت کے نظام کی ناکامی ہے۔ ادویات کی خریداری میں کمیشن، مشینوں کی مرمت کے نام پر خورد برد، اور تبادلوں کا کاروبار یہ وہ چند عوامل ہیں جن کی وجہ سے چیف منسٹر مریم نواز کا اصلاحاتی ایجنڈا رکاوٹوں کا شکار ہے۔ جب ہسپتالوں کے ایم ایس اور سیکرٹری لیول کے افسران سیاسی مصلحتوں یا ذاتی مفادات کے لیے ملی بھگت کر لیں، تو حکومتی ترجیحات دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ اس صورتحال کا ذمہ دار صرف ڈاکٹر یا نچلا عملہ نہیں، بلکہ وہ پورا سسٹم ہے جس میں سزا اور جزا کا تصور ختم ہو چکا ہے۔ جب بدتمیزی کرنے والے ڈاکٹر یا کرپشن کرنے والے افسر کو "سیاسی پشت پناہی” یا "یونین کے دباؤ” پر بچا لیا جائے، تو بہتری کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟ سی ایم کو اگر اپنا ویژن کامیاب بنانا ہے تو انہیں ہسپتالوں کے دوروں کے ساتھ ساتھ "ہائر اتھارٹی” کی صفائی کرنی ہوگی۔ جب تک سیکرٹریٹ سے لے کر ہسپتال کے وارڈ تک احتساب کا ایک کڑا اور شفاف نظام وضع نہیں ہوتا، تب تک "مسیحائی” صرف کتابوں تک محدود رہے گی اور غریب مریض یوں ہی نظام کی بھٹی میں جلتا رہے گا۔ وزیر اعلی پنجاب کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی "ہائر اتھارٹی” اور بیوروکریٹک رکاوٹیں ہیں جو کسی بھی تبدیلی کو ہضم کرنے کے لیے تیار نہیں رہتیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کی چوری، ٹیسٹوں کی مشینوں کا جان بوجھ کر خراب رکھنا اور نچلے سے اوپر کے عملے کی "ملی بھگت” وہ دیواریں ہیں جنہیں مسمار کرنا آسان نہیں ہے۔ جب تک ہسپتالوں کے ایم ایس اور انتظامیہ کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کر کے سخت "کے پی آئیز” (KPIs) پر نہیں پرکھا جائے گا، اصلاحات کا ثمر عام آدمی تک نہیں پہنچے گا۔اصلاحات تبھی کامیاب ہو سکتی ہیں جب وزیر اعلیٰ "سزا و جزا” کے نظام کو سختی سے نافذ کریں انکے پاس سیاسی عزم موجود ہے، لیکن شعبہ صحت کی درستگی کے لیے انہیں نظام کے اندر موجود ان کالی بھیڑوں سے لڑنا ہوگا جو اصلاحات کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہیں۔ اگر وہ اپنی ٹیم، خصوصاً سیکریٹری صحت اور ہسپتالوں کے سربراہان کو جوابدہ بنانے میں کامیاب ہو گئیں، تو پنجاب کا شعبہ صحت واقعی بدل سکتا ہے یہ معرکہ مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔








