پاکستان کا وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہلے بھی ساون کی بارشوں میں بھگتا تھا، یہاں چھوٹے موٹے سیلاب تقریبا ہر سال ہی آتے ہیں۔ لیکن یہ سال تھوڑا مختلف ہے۔ اس سال اسلام آباد کے نشیبی اور ریہہ علاقوں میں نہیں بلکہ سیلابی پانی، شہر کے نئے بننے والے سیکٹرز میں آرہا ہے۔ اوپر سے غصب یہ کہ گزشتہ دس دونوں میں یہ دوسری بار ہوا ہے کہ اسلام آباد کا ایک نجی تعمیراتی سیکٹر ای گیارہ اور فیڈرل گورنمنٹ ھاوسئنگ سوسائٹی اور سی ڈی اے کے زیر انتظام بننے والا سیکٹر ڈی بارہ، میں سیلابی ریلہ آیا ہے۔ جس سے قیمتی جانوں اور لوگوں کے اثاثوں کو شدید پہنچا ہے۔

مون سون کی بارشوں سے بہتا شہر اقتدار، یقینا بنانے والوں نے ایسا نہیں بنایا ہو گا نہ سوچا ہوگا۔ یہ شہر میں گزشتہ کئی سالوں سے اکثر بارش کی لپیٹ میں آتا ہے لیکن اس بار شاید انتظامیہ کی غفلت زیادہ ہے ۔

ای 11 اور ڈی 12 کے علاقوں سے آج سوشل میڈیا کے ذریعے بے شمار ایسی ویڈیوز دیکھنے کو ملیں جو بتا رہی تھی کہ یہ اسلام آباد بہیں بلکہ کوئی بہتا ہوا دریا ہے۔
سیلاب کا پانی بہہ رہا ہے اور گاڑیوں کو اپنے ساتھ لیے جا رہا ہے۔ ایسے لگتا ہے اگر اس شہر کا ایسے ہی رکھا جاتا رہا تو کہیں کوئی نیا دریا یہاں ہی نہ بن جائیں۔ ویسے انگریزی زبان میں شہری علاقوں میں آنے والے ایسے سیلابوں کے لیے” اربن فلڈنگ” کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔

راولپنڈی کے رہنے والے اس سیلابی صورتحال سے اچھی طرح واقف ہیں۔ جبکہ اسلام آباد کے باسیوں کے لیے یہ ایک نئی نئی زحمت ہے۔ اور یقینا اس کی کچھ وجوہات ہیں۔
ان کتابی باتوں میں ایک نظر ڈالتے ہیں جو شہر اقتدار میں بڑھنے کے ساتھ ساتھ نظر انداز کی جارہی ہیں۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ پاکستان میں ، سیلاب خطے کے دیگر ممالک کی نسبت زیادہ نقصان دہ خطرہ ہے ، جو کہ بارشوں کے ساتھ قدرتی توانائیوں کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں 1950 سے 2010 19 بڑے سیلابوں نے بہت زیادہ تباہی مچائی ہے ۔
ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ، اس عرصے میں قریب 8،887 اموات کی اطلاع ہے۔ جبکہ حالیہ کچھ برسوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ ملک کے بہت سے شہروں میں شہری سیلاب ایک عام واقعہ بن گیا ہے۔ صرف یہ ہیں نہیں کہا جاتا ہے کہ 2010 کے میگا سیلاب نے تقریبا 20 ملین افراد کی زندگیوں کو متاثر کیا۔ اس سیلاب سے بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر ، زراعت اور ماحولیاتی نظام اورزمین کی پیداواری صلاحیت کو 10 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

2010 کے بعد تقریباً ہر سال سیلاب کا ایک بڑا واقعہ م پیش آیا ، جس سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔
اب شہری سیلابوں میں دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے سب سے بڑے شہری مراکز خصوصا کراچی اور لاہور بار بار شہری سیلاب کا شکار ہو رہےہیں۔ اور اب یہ دائرہ پاکستان کے دارالحکومت تک بھی پہنچ گیا ہے۔ ان شہری سیلابوں کو روکنے کے لیے حکومت پاکستان کو موجودہ انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کے لئے بہت ذیادہ وسائل خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔لیکن شاید ہماری حکومتیں اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یا انھیں لوگوں کی جان و مال اور املاک کی فکر نہیں ہے۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔

اربن فلڈنگ کے وجوہات میں سب سے موسمیاتی تبدیلی ہے لیکن پاکستان میں فلڈ مینجمنٹ اور دیگر اداروں کی اس معاملے پر نظر پوشی بھی اسے بڑھا رہی ہے۔

پاکستان میں شہری سیلاب کا سبب بننے والی کچھ کلیدی وجوہات یہ ہیں:
شہری سیلاب کی صورت میں کم وقت میں پانی کا زیادہ بہاؤ اور بارش شامل ہے۔ اسے سائنس زبان میں ہائیڈرو سسٹم کہا جاتا ہے۔
بڑے شہروں میں غیر منصوبہ بند مقامات زیادہ تر آبی گزرگاہوں اور قدرتی نکاسی آب کے ارد گرد تعمیر کیے جاتے ہیں جو کہ شہر ی سیلاب کی اہم ترین وجہ ہے۔ یعنی شہری انتظامیہ کو کچی آبادیوں کی بھی نگرانی کی ضرورت ہے جو بیشتر نالوں کے کنارے پر بنائی جاتی ہیں۔
کچی آبادیوں کی وجہ سے ، نالوں کو تجاوزات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ قدرتی نکاسی آب کے راستوں کو روکتا ہے۔
اب تو انتہا وہ کوڑا کرکٹ ہے جو نکاسی آب والے نالوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے ۔
بلدیہ کا ایک اہم کردار ہے جو مسلسل نظر انداز ہو رہا ہے ۔
شہر کے اصل نقشے کو نظر انداز کرنا بھی شہری سیلاب میں اضافے کا سبب ہے۔
آبادی میں اضافہ اور شہروں کا پھیلاؤ بھی دیکھنا ہوگا۔
ان تمام وجوہات کے بعد اسلام آباد کو دریا بنانے والی انتظامیہ کی بات کرتے ہیں۔
سی ڈی اے سمیت ہر بڑے ادارے کو جو اسلام آباد کی خوبصورتی کا کریڈٹ لیتے ہیں، دیکھنے کی ضرورت ہے کہ شہر میں بننے والی غیر سرکاری اور غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیاں کو کب تک لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے دیا جائے گا۔
اربن فلڈنگ مینجمنٹ والے لوگوں کو کہاں استعمال کیا جائے گا؟
غیر قانونی تجاوزات اور تعمیرات کو کون دیکھے گا؟ سب سے آخر میں شہریوں کو اربن فلڈنگ کی صورت میں رسک مینجمنٹ کی تربیت کون دے گا؟.
صرف یہ ہی نہیں عید الاضحی کے دن ہونے والی بارش ایک اشارہ تھی جس کے بعد نالوں کی صفائی انتظامیہ اور میونسپل کی ذمہ داری تھی۔جیسے نہیں دیکھا گیا۔
اسلام آباد کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اس شہر میں ایسی تمام تعمیرات کا خاتمہ ہو جو کہ پانی کی گزر گاہوں پر تعمیر ہوئیں ہیں اور ان تمام افسران کی سرزنش ہو جو اس اہم معاملے میں آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں اور شہر اقتدار کو دریا بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔۔۔کہیں یہ دریا ہم سب کو اپنے ساتھ بہا کے نا لے جائے۔
ورنہ شہر دریا بن رہا ہے اور ہماری انتظامیہ آئندہ آنے والے سیلابوں سے بچنے کے لیے لوگوں کو لائف جیکٹ دے ہی رہی ہیں۔ یعنی دریا کے کنارے رہنے والوں کو اب تیراکی سیکھ لینی چاہیے

Shares: