پنجاب اورخیبرپختونخوا الیکشن کی تاریخ سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے سامنے 3 معاملات ہیں،وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہماری درخواست زیر التوا ہے اسے بھی ساتھ سنا جائے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیکشن 57 کے تحت صدر مملکت نے انتخابات کا اعلان کیا،الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں چیزیں واضح نہیں،دیکھنا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن تاریخ دینے کا اختیار کس کو ہے، ہمارے سامنے ہائیکورٹ کا 10 فروری کا آرڈر سامنے تھا ،ہمارے سامنے بہت سے فیکٹرز تھے ،جن کی بنیاد پر از خود نوٹس لیا،ہائیکورٹ میں لمبی کارروائی چل رہی ہے،وقت گزرتا جار ہا ہے،
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرانا ہے،سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی،انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا مزید وقت بڑھ سکتا ہے ہم نے آئین کو دیکھنا ہے اس پر عمل درآمد ہورہا ہے،ہمارے سامنے 2درخواستیں تھیں اور سمپل تھا کہ وہ سنتے،سماعت آئندہ ہفتے کریں گے اس وقت ہم نوٹس جاری کرتے ہیں،کچھ سوال دونو ں اسمبلی کے اسپیکرز نے اپنی درخواستوں میں شامل کیے ہیں،20فروری کو صدر کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد صورتحال بدل گئی دورخواستیں ہیں وہ اب آ وٹ ڈیڈڈ ہوگئی ہیں ، اس پر وضاحت کی ضرورت ہے،آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہونگے،وقت جلدی سے گزر رہا ہے،ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا،
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میرے ازخود نوٹس سے متعلق کچھ تحفظات ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انتحابات کے ایشوپر وضاحت طلب ہے، ہم اردارہ رکھتے ہیں سب کو سنیں،ہم نے آئندہ ہفتے کا شیڈول منسوخ کیا تا کہ یہ کیس چلا سکیں، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے اسپیکر درخواست ہیں،ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے نوٹ پر لیا گیا،کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو بھی بلایا گیا جو کہ فریق نہیں ہے،
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وقت کی کمی کی وجہ سے زیادہ لمبی سماعت نہیں کر سکتے، ہمارے سامنے یہ تجویز آئی ہے کہ ہم کل بھی سماعت کریں،اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ کل کیس کی سماعت نہ کریں ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کل ہم محدود سماعت کریں گے ، اس میں کہیں گے کہ تیاری کرکے آئیں ،شعیب شاہین نے کہا کہ یہ ٹائم باونڈ کیس ہے اس میں انتخابات کرانے کا ایشو ہے،جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے تو سب سیاسی جماعتیں فائدہ حاصل کرینگی،شعیب شاہین نے کہا کہ ازخود نوٹس میں اگر فیصلہ انتخابات کرانے کا آتا ہے تو سب کوہو فائدہ ہوگا، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جمہوریت میں سیاسی جماعتیں حکومت بناتی ہیں،میرے خیال میں تمام سیاسی جماعتوں کو سننا چاہیے، وکیل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں اور حکومت کو قانونی موقف دینا چاہیے اس لیے بلایا جاسکتا ہے،جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اہم ایشو ہے ،اس کا مقصد ٹرانسپرنسی اور عدالتوں پر اعتماد کی بات ہے،وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ لاہورہائیکورٹ میں جو کیس چل رہے ہیں ان کا ریکارڈ طلب کیا جائے، عدالت نے کہا کہ ہمارے سامنے 2 درخواستیں آئیں، درخواستوں میں گورنرز کی جانب سےالیکشناعلان نہ کرنے کو چیلنج کیا گیا،جب اسپیکرز نے درخواست دی اس وقت صدر اور الیکشن کمیشن میں خط وکتابت شروع ہوئی، صدر نے 20 فروری کو 9 اپریل کو انتخابات کرانے کی ہدایت کی ، ہائیکورٹس نے الیکشن تاریخ کے لیے گورنرزسے ڈسکس کرنے کی ہدایت کی ،گورنز نے اس آرڈر پر تحفظات کیا اور انٹراکورٹ اپیل دائر کی گئی انٹراکورٹ اپیل پرسماعت کی تاریخ 27 فروری ہے، پشاور ہائیکورٹ میں ایسے ہی کیس کی سماعت 28 فروری کو ہے ،آئین کے مطابق الیکشن اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 دن میں کیے جانے ہیں،از خود نوٹس میں کچھ سوالات الیکشن کمیشن ایکٹ 27 اور 28 سے متعلق اٹھائے گئے
خواجہ سرا مشکلات کا شکار،ڈی چوک میں احتجاج،پشاورمیں "ریپ” کی ناکام کوشش