اسلام آبادہائیکورٹ نے لاہور اور بہاولپور سے کمسن بچیوں کاوالدہ سمیت اغواکے معاملے میں ڈی آئی جی انویسٹی گیشن اسلام آباد طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں لاہور اور بہاولپور سے کمسن بچیوں کاوالدہ سمیت اغوا کے معاملے پر جسٹس محسن کیانی نے وقاص احمد اور سہیل علیم کی مقدمہ اخراج کی درخواست کی سماعت کی،مشرف رسول نے وقاص اور سہیل کے ساتھ لین دین کے تنازع پر مقدمہ درج کرا رکھا ہے،عدالت نے استفسار کیا کہ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن آ کر بتائیں کیا لاہور پولیس کا بیان قلمبند کیاگیا؟ڈی آئی جی بتائیں جنہوں نے خاتون کے گھر لاہور چھاپہ مارا، کیا ان کا بیان لیاگیا،جسٹس کیانی نے کہاکہ جنہوں نے خاتون اور بچیوں کو گھر سے اٹھایا ان کے پاس سرچ وارنٹ تھے۔
جسٹس محسن اخترکیانی نے مشرف رسول کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کیا۔وکیل شہریار طارق نے کہاکہ سپریم کورٹ نے اس عدالت کا اکتوبرکاایک آرڈر معطل کررکھا ہےجسٹس کیانی نے کہا کہ اس کے بعد جو آرڈر ہوا وہ معطل نہیں ہوا، آپ اس عدالت کو کام سے روک نہیں سکتے،ہم جو آرڈر کریں گے آپ اسے آئینی عدالت میں لے جائیں، ہم ایک واقعہ کی سچائی میں جانا چاہتے ہیں،جس میں خاتون اور بچیوں کی تذلیل ہوئی ،اگر بغیر سرچ وارنٹ کسی کو اٹھایا تو وہ اغواسمجھاجائے گا، پولیس کچھ کر نہیں سکتی ، ایف آئی اےانویسٹی گیشن کرنا نہیں چاہتی ، لطیف کھوسہ نے کہاکہ مشرف رسول نے مہنگا گھر اسلام آباد میں بنایا، لین دین کا تنازعہ تھا،مشرف رسو ل کے وکیل شہریار طارق نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ہم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیاتھا لیکن اب وفاقی آئینی عدالت میں بھی درخواست دی ہے،جسٹس کیانی نے کہا کہ مطلب یہ معاملہ آئینی عدالت، سپریم کورٹ، پولیس، ایف آئی اے، مجسٹریٹ کے پاس زیرالتوا ہے،وکیل شہریار طارق نے کہاکہ جی بالکل ایسا ہی آئینی عدالت میں ابھی کیس مقرر نہیں ہوا،جسٹس کیانی نے کہاکہ معاملہ اتنی جگہ التوا میں ہے اور کوئی انویسٹی گیشن نہیں ہورہی تو پھر انجوائے کریں،آپ کہنا چاہتے ہیں پہلے ہم 27ویں آئینی ترمیم پر بحث کریں گے، پھر دائرہ اختیار فائنل ہوگا، وکیل نے کہاکہ نہیں ایسا نہیں ہے ہم نے اسی عدالت کا بس ایک آرڈر چیلنج کیا ہے،لطیف کھوسہ نے کہاکہ ہائیکورٹ بھی آئینی کورٹ ہے، پھر تو معذرت کیساتھ ہائیکورٹ کو تالہ لگا دیں۔
دھرمیندر کی موت کے بعد ہیما مالنی کی پہلی ٹوئٹ، پیغام کیساتھ یادگار تصاویر جاری کردیں
جسٹس کیانی نے کہاکہ صورتحال تو ایسی ہی ہے،اگر عدالتیں مضبوط ہوتی تو آج یہ سب کچھ نہ ہورہا ہوتا،لاہور سے خاتون اور اس کی 3سال کی بچیوں کواغواکیاگیا، یہاں پولیس مقابلہ کیا گیا،معاملہ وزیراعلیٰ پنجاب اور آئی جی کو بھیجا تھا،عورت اور بچیوں کے اغوا پر قانون کی بے بسی پر شرم آتی ہے،ہم سب دیکھ رہے ہیں اور کچھ کر نہیں سکتے،تین سال کی بچی کو 6دن ماں سے دور رکھاگیایہ انتہائی شرمناک حرکت تھی،ساری عدالتیں اگر کچھ نہیں کر سکتیں تو پھر ہم کس لئے یہاں بیٹھے ہیں،جس پولیس پر الزام ہے اسی نے تفتیش کرنی ہے،جو ایس پی یہاں آئے انہیں کیس کا ایک لفظ پتہ نہیں تھا۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہاکہ کسی قابل اعتماد ایجنسی یا ادارے سے معاملہ انویسٹی گیٹ کروا لیں،جسٹس کیانی نے کہاکہ وہ ایجنسی کون سی ہے جو غیرجانبدار ہے؟جس پر ہم اعتماد کرسکیں آپ بتا دیں،اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈی آئی جی کو طلب کرتے ہوئے سماعت9دسمبر تک ملتوی کردی۔








