اسلام آباد ہائی کورٹ نے داڑھی چھوٹی ہونے کی وجہ سے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہ ملنے کے خلاف درخواست پر تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے۔ جسٹس محسن اخترکیانی کی سربراہی میں عدالت نے درخواست کو ہدایات کے ساتھ مسترد کر دیا۔
فیصلے میں عدالت نے سیکرٹری تعلیم کو مدارس کے لیے قانون سازی کی تجویز بھیجنے کی ہدایت کی ہے اور کہا کہ وہ چھ ماہ کے اندر مدارس ریگولیشن کے حوالے سے ضوابط تیار کریں۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ڈی جی مذہبی تعلیم اور وزارت تعلیم مدارس کے لیے باقاعدہ قواعد و ضوابط بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون میں دینی مدارس کے تعلیمی معیار، اساتذہ کی قابلیت، نصاب، داخلے اور امتحانی نظام کے اصول وضوابط طے کیے جائیں تاکہ دینی تعلیم کے اداروں میں معیار کو بہتر بنایا جا سکے۔اس کے علاوہ، عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ ایچ ای سی (ہائر ایجوکیشن کمیشن) مدارس کی ڈگریوں کی تصدیق کر رہا ہے، لیکن اس کے لیے کوئی واضح قانونی یا تعلیمی ضابطہ موجود نہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے اس معاملے کو حل کرنے کے بجائے ایک سیاسی حکمت عملی کے تحت التوا میں رکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مدارس کا تعلیمی معیار یقینی بنانے کے لیے، جیسے دیگر شعبوں میں قانون سازی کی گئی ہے، ویسا ہی کوئی قانون یا ضابطہ مدارس کے لیے نہیں بنایا گیا۔عدالت کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں قومی سطح پر کوئی یکساں تعلیمی نظام موجود نہیں، جس کی وجہ سے دینی مدارس اپنی پالیسیوں کے مطابق بغیر کسی قانونی نگرانی کے کام کر رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلبا کو مستقبل میں مشکلات کا سامنا ہو گا، کیونکہ مدارس کی ڈگریاں نہ تو ملک میں مکمل طور پر تسلیم شدہ ہیں اور نہ ہی بین الاقوامی سطح پر۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی واضح کیا کہ دینی مدارس کسی مخصوص قانون کے تحت ریگولیٹ نہیں کیے جا رہے، اور درخواست گزار کو آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت تحفظ فراہم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے نتیجے میں، درخواست کو مسترد کر دیا گیا۔