اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر ایک افسر کو گریڈ 20 سے 21 میں ترقی نہ دینے کے سینٹرل سلیکشن بورڈ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔
عدالت نے درخواست گزار محمد طاہر حسن کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے حکم دیا کہ سینٹرل سلیکشن بورڈ آئندہ اجلاس میں درخواست گزار کی ترقی کو سول سرونٹس پروموشن رولز کے تحت زیر غور لائے۔عدالت نے کہا کہ سینٹرل سلیکشن بورڈ کو ایسی انٹیلی جنس رپورٹس کو اہمیت نہیں دینی چاہیے جن میں افسر کو محکمانہ سطح پر اپنے دفاع کا موقع نہ دیا گیا ہو۔ یہ فیصلہ ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق کی سربراہی میں سنایا گیا۔
فیصلے میں عدالت نے مزید کہا کہ اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا گیا کہ قابل وزیراعظم اس نوعیت کی لاپرواہی کو کیسے ہونے دیں گے۔ عدالت نے سوال اٹھایا کہ حکومت بیوروکریسی کو بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے انٹیلی جنس رپورٹس کے رحم و کرم پر کیسے چھوڑ سکتی ہے؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ ان حالات میں وزیراعظم بیوروکریسی سے حکومت کی خدمت کی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟عدالت نے یہ واضح کیا کہ سول سرونٹس پروموشن رولز کے تحت افسران کی ترقی کا فیصلہ مکمل طور پر شفاف اور باقاعدہ طریقے سے ہونا چاہیے، اور یہ نہیں ہو سکتا کہ افسران کی ترقی انٹیلی جنس رپورٹس یا دیگر غیر مصدقہ ذرائع کی بنیاد پر روکی جائے۔
عدالت کے حکم کے مطابق، سینٹرل سلیکشن بورڈ کی آئندہ میٹنگ میں درخواست گزار محمد طاہر حسن کی ترقی کو دوبارہ زیر غور لایا جائے گا اور اس معاملے کو سول سرونٹس پروموشن رولز کے مطابق حل کیا جائے گا۔








