سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے صدرِ پاکستان کی جانب سے آئینِ پاکستان 1973 کے آرٹیکل 200 کے تحت حاصل اختیارات اور طے شدہ طریقہ کار کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کے تبادلے کے ذریعے تقرری کو سراہتے ہوئے خوش آئند قرار دیا ہے۔

سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے اس ضمن میں اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صدرِ پاکستان کی جانب سے آئینِ پاکستان 1973 کے آرٹیکل 200 کے تحت حاصل اختیارات اور طے شدہ طریقہ کار کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کے تبادلے کے ذریعے تقرری کو سراہتی ہے، خصوصاً جب یہ تقرریاں چھوٹے صوبوں سے کی جائیں۔ یہ اقدام اسلام آباد ہائی کورٹ کے وفاقی تشخص کی بحالی کی جانب ایک اہم قدم ہے، کیونکہ اس عدالت کا قیام بنیادی طور پر تمام صوبوں، بشمول چھوٹے صوبے جیسے سندھ اور بلوچستان، کی مساوی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔جب اسلام آباد ہائی کورٹ کی ابتدا ہوئی، تو اس کا ڈھانچہ اس انداز میں ترتیب دیا گیا تھا کہ اس میں ہر صوبے سے ایک جج شامل ہو، اس کے علاوہ اسلام آباد سے بھی ایک جج مقرر کیا جائے۔ اس ڈھانچے کا مقصد وفاقیت کے اصولوں کو برقرار رکھنا اور تمام علاقوں، بالخصوص چھوٹے صوبوں، کی آواز کو وفاقی دارالحکومت کی عدلیہ میں شامل کرنا تھا۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس وفاقی تشخص میں کمی واقع ہوئی، جس کے نتیجے میں سندھ اور بلوچستان جیسے صوبوں کی متناسب نمائندگی متاثر ہوئی۔

اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ ججوں کے تبادلے، بشمول محترم جسٹس خادم حسین سومرو، جو دیہی سندھ سے تعلق رکھتے ہیں، کو ایک خوش آئند قدم قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس سے اسلام آباد ہائی کورٹ کی اصل ساخت اور تشخص کی بحالی میں مدد ملے گی۔ جسٹس سومرو کی تقرری نہ صرف اسلام آباد ہائی کورٹ میں وسیع تجربہ اور مہارت لائے گی بلکہ یہ بھی یقینی بنائے گی کہ سندھ کے عوام، بالخصوص دیہی علاقوں کے لوگ، وفاقی عدلیہ میں مناسب نمائندگی حاصل کریں۔ہم اسلام آباد بار کونسل اور اسلام آباد کی قانونی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس اقدام کی مکمل حمایت کریں اور چھوٹے صوبوں، بشمول جسٹس سومرو، سے آنے والے ججوں کو خوش آمدید کہیں۔ اس اقدام کی مخالفت یا منفی بیانات نہ صرف وفاقیت کے اصولوں کو کمزور کریں گے بلکہ سندھ کے عوام، بشمول اس کی قانونی برادری، کے جذبات کو بھی مجروح کریں گے۔سندھ ہائی کورٹ ایسوسی ایشن اس بات پر پختہ یقین رکھتی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے وفاقی تشخص کی بحالی پاکستان کے عدالتی نظام کی شفافیت اور شمولیت کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ہم تمام متعلقہ فریقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس اقدام کی حمایت کریں اور عدلیہ کو ایک متحد قوت بنانے کے لیے مل کر کام کریں تاکہ قومی یکجہتی کو فروغ دیا جا سکے۔

دوسری جانب بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر میر عطاء اللہ لانگو نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دیگر صوبوں کے ججز کی تعیناتی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے تحت صدر پاکستان کو اختیار ہے کہ وہ ججز کی تقرر و تبادلے کرے، سینئر و قابل ججز کی اسلام آباد میں تعیناتی آئین کے حوالے سے قابل ستائش ہیں۔ میر عطاء اللہ لانگو نے صدر پاکستان کی جانب سے حال ہی میں بلوچستان، سندھ اور لاہور سے 3 ججز کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں تعیناتی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 200 کے تحت صدر کو اختیار ہے کہ وہ ججز کی ایک ہائی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ تبادلے کرے۔ صدر مملکت نے جن ججز کی تعیناتی کی ہے آئین کی پاسداری کے حوالے سے قابل ستائش ہیں ،بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسے اقدامات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے جس کے ذریعے آئین کی پاسداری کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

سویلینز کا کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو 21ویں ترمیم نہ کرنا پڑتی،وکیل

امریکا میں ایک اور طیارہ حادثے سے بال بال بچ گیا

Shares: