وفاقی وزیر برائے ہائوسنگ اینڈ ورکس میاں ریاض حسین پیرزادہ نے کہا ہے کہ بڑھتی آبادی کے ساتھ ہاؤسنگ کی ضروریات کو بھی ہنگامی بنیادوں پر دیکھنا ہو گا، پالیسی سازی میں یونیورسٹیز اور ریسرچرز کا ان پٹ ناگزیر ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز(نمل) میں رئیل اسٹیٹ کے موضوع پر کانفرنس سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔میاں ریاض حسین پیرزادہ کا کہنا تھا کہ نمل مبارکباد کا مستحق ہے کہ پہلی بار اس موضوع پر ایسی کانفرنس کا انعقاد کیا، ہاؤسنگ کی ضروریات کو ہنگامی بنیادوں پر دیکھنا ناگزیر ہے۔ ہمیں ان ممالک کے ماڈلز کی پیروی کرنا ہو گی جنہوں نے نئے آئیڈیاز سے ہاؤسنگ اور رئیل اسٹیٹ میں بے پناہ ترقی کی، اس کے ساتھ ساتھ پالیسی سازی میں یونیورسٹیز اور ریسرچرز کا ان پٹ بھی ناگزیر ہے، رئیل اسٹیٹ اور ہائوسنگ میں شفافیت اور اشتراکیت کا فقدان ہے، سٹوڈنٹس ہمارا بیش قیمت سرمایہ ہیں جن کی شمولیت رئیل اسٹیٹ کے شعبہ میں نئی جہات لائے گی۔

میاں ریاض حسین پیرزادہ کا کہنا تھا کہ ہم ایک ملک ہیں، یہ اتنا خوبصوت ملک ہے، میں باہر گیا، امریکہ برطانیہ میں سانس گھٹتی ہے، دنیا فٹ پاتھوں پر سوتی لاکھوں لوگوں کو مار رہے، بھیک مانگی جا رہی ہے، اسلحہ بیچنے والے ملک انسانی حقوق کے علمبردار ہیں۔ یہاں بھوک سے کوئی نہیں مررہا،پرسکون فضا ہے کھیت کھلیان ہے، اگر قومی سوچ پیدا ہو جائے تو ہمارے سب مسئلے حل ہو سکتے، ملک کے لئے خدمت کا جذبہ ہونا چاہئے، چین بھی تو اوپر آیا ہے، پاکستان کو ایٹمی ملک بننے کی سزا مل رہی ہے،اگر اس ملک کو بچانے کا کام ہو گیا تھا اور نیوکلیئر ضروری تھا، اس کی پہرہ داری کی اور پاکستان نے ایران کو ٹیکنالوجی فراہم کی،پاک آرمی ایران کیساتھ کھڑی ہوئی،جنرل ضیا کھڑے ہوئے ،بٹن لسر نے کہا انقلابی بننے کی کوشش نہ کرو اس کا انجام جو ہوتا ہے اس کا بھی آپ کو پتہ ہے۔میں نے دوست سے کہا موٹوتبدیل کرو یہاں توخوشامد چابلوسی حاشیہ برداری کرنا پڑتی ہے،یوتھ کو اپنے ویژن سے ہٹایا جا رہا ہے، جب ماٹو کو فالو نہیں کریں گے تو پھر کیا نتیجہ نکلے گا،

وفاقی وزیر کا مزیدکہنا تھا کہ اسلام آباد میں پراپرٹی ڈیلرز لوگوں کی ہڈیاں بیچ کر کھا گئے ہیں۔میرا محکمہ اگر یہ محکمہ جمہوریت کا حسن نہ ہوتا تو یہ انکو دیا جاتا جو ایک آدھ ووٹ پر حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں ۔اگر یہ محکمہ ذمہ دار لوگوں کے پاس ہوتا تو بحریہ اور ڈی ایچ اے وجود میں نہ آتے،دانائی تعلیم سے تو نہیں آتی یہ تو اعلی اقدار کی وجہ سے آتی ہے۔ہم 80 فیصد پیسہ کھا جاتے ہیں اور2 فیصدمنصوبہ بندی پرلگاتے ہیں۔جاپان 70 فیصد منصوبہ بندی پر لگاتا ہے۔

Shares: