اسلام آباد میں غیر قانونی کلینکس اور بڑے سرکاری ہسپتالوں میں خلاف ضابطہ تعیناتیوں کا انکشاف
اسلام آباد میں غیر قانونی کلینکس اور بڑے سرکاری ہسپتالوں میں خلاف ضابطہ تعیناتیوں کا انکشاف
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز کا اجلاس کمیٹی کی چیئر پرسن سینیٹر خوش بخت شجاعت کی سربراہی میں پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا۔
سینیٹر محمد جاوید عباسی کی جانب سے اسلام آباد میں غیر قانونی پرائیویٹ کلینکس اور ہسپتالوں کی بھر مار، ای پی آئی کے تحت کوریج کی شرح سے متعلق ڈاکٹر پروفیسر مہر تاج روغانی کے سوال اور سردار محمد شفیق ترین کے پمز، ایف جی ایچ ایس، نیر م، ڈریپ اور دیگر صحت سے متعلقہ اداروں میں افسران کی خلاف ضابطہ تعیناتیوں ایڈہاک کی بنیاد پر اداروں کے معاملات چلانے سے متعلق عوامی اہمیت کے مسئلے سمیت دیگر اہم امور پر تفصیلی غور کیا گیا۔
کمیٹی کی چیئر پرسن اور اراکین نے غیر قانونی کلینکس اور ہسپتالوں کی وفاقی دارلحکومت میں موجودگی کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا۔ اراکین نے کہا کہ عوام کو عطائیوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کمیٹی کو تفصیلی نقطۂ نظر سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب وفاقی دارلحکومت میں یہ حال ہے تو ملک کے باقی علاقوں میں کیا حال ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہیلتھ کیئر ریگولیٹری اتھارٹی پوری طرح فعال نہیں۔
وزارت کے حکام نے بتایا کہ اتھارٹی کو فعال بنانے میں تاخیر ضرور ہوئی ہے۔ مالی مسائل کا بھی سامنا رہا ہے تاہم اب حکومت سنجیدگی کے ساتھ اس ادارے کو فعال بنانے پر کام کر رہی ہے اور بہت جلد پیش رفت ہو گی۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ ایک سال ادارے کے نوٹیفکیشن کرنے میں لگا، ایک سال سی ای او کی تعیناتی میں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوری طور پر اس ادارے کو فعال بنانے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں اور اس کے مالی مسائل کے ساتھ ساتھ افرادی قوت اور سہولیات سے آراستہ کیا جائے تاکہ صحت کے شعبے کی بہتر طریقے کے ساتھ نگرانی ہو سکے۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل زمان نے کمیٹی کو بتایا کہ اتھارٹی کا بورڈ تشکیل دے دیا گیا ہے۔ انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اتھارٹی کو فعال بنانے میں تاخیر ہوئی ہے لیکن اب آگے بڑھنے کا وقت آگیا ہے۔
سینیٹر سردار محمد شفیق ترین نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اسلام آباد کے بڑے ہسپتالوں اور صحت سے متعلقہ شعبوں میں بڑے پیمانے پر خلاف ضابطہ تعیناتیاں ہوئی ہیں اور ڈیپوٹیشن کی بنیاد پر لمبے عرصے سے افراد براجمان ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔کمیٹی نے وزارت کی جانب سے دیئے گئے اعداو شمار پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ناکافی قرارد یا۔
سینیٹر سردار شفیق ترین نے کمیٹی میں افراد کے ناموں سمیت تمام تر تفصیلات پیش کیں۔ انہوں نے کہا کہ خلاف ضابطہ جونیئر افسران اہم عہدوں پر فائز کئے جا رہے ہیں اور سینئر افسران کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ کمیٹی نے ہدایات دیں کہ ایک ہفتے کے اندر تمام تر تفصیلات فراہم کی جائیں۔ سردار شفیق ترین نے کہا کہ اہم ادارے ہیں اور ڈریپ میں خاص طور پر کرپشن ہو رہی ہے۔ انہوں نے تحقیقات کے لئے ایک سب کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ بھی کیا۔
سینیٹر پروفیسر ڈاکٹر مہر تاج روغانی کے سوال کے جواب میں ای پی آئی کے حکام نے بتایا کہ آٹھ ہزار سے زائد ہسپتالوں میں حفاظتی ٹیکے لگائے اور ویکسینیشن کرائی جاتی ہے جبکہ بلوچستان اور گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں کیلئے موبائل یونٹس کے ذریعے بھی حفاظتی ٹیکوں اور ویکسینشن کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ حکام نے بتایا کہ انفراسٹرکچر کو پھیلایا جا رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو نیٹ ورک میں شامل کیا جا سکے اور عوام کو قریبی جگہ پر سہولت فراہم ہو سکے۔ کمیٹی کو ستمبر کے وسط میں شروع ہونے والے سروے کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا اور بتایا کہ اس سروے کی بدولت تازہ اعدادوشمار سامنے آئینگے اور کوریج کی شرح کا بہتر انداز ہ لگایا جا سکے گا۔ کمیٹی کو امیونائزیشن کے تمام عمل سے بھی آگاہ کیا گیا۔
آج کے اجلاس میں سینیٹرز ڈاکٹر اشوک کمار، ڈاکٹر اسد اشرف، ڈاکٹر سکندر مندھرو، ثناء جمالی، سردار محمد شفیق ترین، غوث محمد خان نیازی، محمد جاوید عباسی، دلاور خان، عائشہ رضا فاروق، بہرہ مندخان تنگی، پروفیسر ڈاکٹر مہر تاج روغانی اور دیگر کے علاوہ وزارت صحت، ای پی آئی حکام اور متعلقہ افسران نے شرکت کی