افغان امن عمل اور شنگھائی تعاون تنظیم کے موضوع پر وزیر خارجہ کا خصوصی خطاب

0
43

ا

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے افغان امن عمل اور شنگھائی تعاون تنظیم کے موضوع پر’ ویب۔ نار ‘سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آئی۔پی۔آر۔آئی) اور انسٹی ٹیوٹ فار سٹرٹیجک اینڈ ریجنل سٹڈیز (آئی۔ایس۔آر۔ایس) ازبکستان کا ”افغان امن عمل اور شنگھائی تعاون تنظیم“ کے عنوان پر اس ’ویب۔نار‘ میں مدعو کرنے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ موضوع ہم سب کے لئے نہایت اہمیت اور دلچسپی کا حامل ہے۔

میں اس موقع کا خاص طورپرخیرمقدم کرتا ہوں جس میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس۔سی۔او) کے سیکریٹری جنرل عزت مآب ویلاد میر نوروف بھی ہمارے ساتھ یہاں شریک ہیں تاکہ افغانستان میں امن واستحکام کے لئے کوششوںکے ضمن میں ’ایس۔سی۔او‘ کا نکتہ نظر پیش کریں۔

ہمارا آج کا موضوع تاریخی اور موجودہ دنیا کے لئے سٹرٹیجک طورپر نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان عالمی ایجنڈے پر موجود ہے اور افغان امن عمل آج درست طور پرعالمی برادری کی توجہ کا مرکز ومحوربنا ہوا ہے۔

گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصے سے افغان عوام اپنے ملک میں عدم استحکام اور جاری تنازعہ سے بے پناہ متاثر ہوئے ہیں۔ افغانستان کے پڑوس میں پاکستان خاص طورپر اس تنازعہ کے مضر اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ افغانستان میں جاری امن عمل سے یہ امید اور توقع پیدا ہوئی ہے کہ دہائیوں سے جاری اس تنازعہ کا خاتمہ ہو اور پائیدار امن، معاشی ترقی اور علاقائی روابط کے نئے امکانات روشن ہوں۔

گزشتہ ایک سال میں امن عمل میں غیرمعمولی پیش ہائے رفت ہوئی ہیں۔ 29 فروری 2020 کو امریکہ طالبان امن معاہدہ ہونا اس ضمن میں ایک اہم سنگ میل تھا۔ اس کا اگلا منطقی قدم افغان دھڑوں میں سیاسی عمل کا آغاز ہے جو 12 ستمبر 2020 کو بین الافغان مذاکرات کے آغاز کی شکل میں شروع ہوچکا ہے۔ اس ضمن میں ایک اور مثبت قدم 2 دسمبر 2020 کو مذاکرات کرنے والی دونوں اطراف میں قواعد وضوابط سے متعلق معاہدہ کا طے پانا ہے۔ اس وقت جب ہم یہ بات کررہے ہیں ،دوہا میں مذاکرات کا دوسرا مرحلہ جاری ہے اور ہمیں امید ہے کہ اس ایجنڈے پر پیش رفت ہوگی۔

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ امن مذاکرات اپنی نوعیت میں بلاشبہ ایک پیچیدہ اور دقت طلب عمل ہوتا ہے۔ اس تناظر میں بین الافغان مذاکرات کو بھی کوئی استثنی نہیں ہے۔ اب بین الافغان مذاکرات ضابطہ کار سے ٹھوس مرحلے کی طرف آگے بڑھ چکے ہیں، یہ نہایت اہم ہے کہ مذاکرات کرنے والے فریقین مطلوبہ ضبط وتحمل اور مقصدیت کے احساس کا مظاہرہ کریں۔ ناگزیر امر یہ ہے کہ تعمیری طرز عمل اپنائیں، مذاکرات میں لچک دکھائیں ، ایک دوسرے کے لئے گنجائش پیدا کریں اور ایسے مشترکات تلاش کریں جن کے ذریعے پرامن اور مستحکم افغانستان کا بڑا مقصد حاصل ہوسکے۔

افغانستان میں امن اور استحکام پاکستان کے لئے ناگزیر اور نہایت اہم ہے۔ افغانستان محض ایک ہمسایہ نہیں بلکہ ہمارے دونوں ممالک کے درمیان تاریخ، عقیدے، ثقافت اور خون کے رشتے استوار ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ افغان تنازعے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ تنازعے کے تمام فریقین کا مذاکرات کے ذریعے حل کی تلاش پر اتفاق کرنے سے ہمارے موقف کی تائید ہوئی۔ پاکستان نے امن عمل کی ٹھوس انداز میں بھرپور حمایت کی ہے اور اس عمل کو اس نہج تک لانے میں مثبت کاوشیں کی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اجتماعیت کا حامل، وسیع البنیاد اور جامع تصفیہ نہایت اہم ہے۔

ہم افغان قیادت پر زور دیتے ہیں کہ وہ افغانستان اور خطے میں پائیدار امن کے قیام کے اس تاریخی موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائے۔ ہمارا سب فریقین کے لئے یہی پیغام ہے کہ افغانستان میں پاکستان کا کوئی خاص پسندیدہ (فیورٹ) نہیں ہے۔ ہم بین الافغان مذاکرات کے نتائج کا احترام کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ امن عمل کو اندر اور باہر سے خرابی پیدا کرنے والے عناصر کی شرانگزیوں سے محفوظ بنانا ہوگا۔

اپنے حصے کے طورپر پاکستان افغان قیادت میں افغانوں کو قبول عمل کی حمایت جاری رکھے گا۔ ہم ایسا افغانستان ابھرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں جو داخلی طور پرہی نہیں بلکہ ہمسایوں کے ساتھ پرامن، مستحکم، متحد، خوش حال اور خود مختارہو۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ دوطرفہ سطح پر پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنے روابط کو مضبوط بنایا ہے، تجارت، ٹرانزٹ اور معاشی روابط کو گہرا کیا ہے۔ 19 نومبر2020 کو وزیراعظم عمران خان نے کابل کا دورہ کیا اوردوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے، امن عمل کی حمایت اور تنازعے کے خاتمے کے بعد افغانستان میں تعمیر نو اور بحالی کی پاکستان کی پالیسی کا اعادہ کیا۔

ایک دوسرے سے جڑنے اور تجارت کے فروغ کی صورت میں افغانستان میں امن کے خطے اور دنیا کے لئے بے پناہ ثمرات میسرآئیں گے۔ وسط ایشیاءاور جنوبی ایشیاءکے ایک دوسرے سے جڑ جانے سے بحر عرب تک رسائی ہوگی جس سے خطے میں تجارت کو بے پناہ ترقی ملے گی۔

افغانستان میں امن کے نتیجے میں ’کاسا ۔1000‘ اور ’تاپی ‘ (ٹی۔اے۔پی۔آئی) گیس پائپ لائن جیسے توانائی کے دیرینہ منصوبہ جات کو مکمل کرنے میں مدد ملے گی۔

مشترک تاریخ وثقافت کے ساتھ ہم اس قابل ہوں گے کہ عوامی سطح پر روابط کو فروغ دے کر ان کی حقیقی صلاحیت کو روبہ عمل کریں جس سے خطے کے تمام ممالک کو فائدہ حاصل ہوگا اور خطہ معاشی طورپر نہ صرف باہم یکجا ہوگا بلکہ ہم آہنگی کا محور ومرکز بن جائے گا۔ اس طرح افغانستان کے لئے نئے معاشی امکانات بھی پیدا ہوں گے اور ایسی سازگار فضا بنے گی جس میں لاکھوں افغان مہاجرین عزت ووقار کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس لوٹ سکیں گے۔

اجتماعیت کے حامل، وسیع البنیاد اور جامع سیاسی تصفیہ تک پہنچنا اگر چہ افغانوں کی ذمہ داری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کو امن کے اس جاری عمل میں تعمیری انداز میں افغانستان کے ساتھ روابط کو جاری رکھنا اور تنازعے کے بعد کے مرحلے میں معاشی اور ترقیاتی عمل میں اپنی معاونت کی فراہمی کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔

ہماری دانست میں عالمی برادری کو خاص طورپر درج ذیل نکات پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی:
تمام فریقین پر زور دیاجائے کہ وہ تشدد میں کمی لانے کے طریقہ کار پر اتفاق کریں جو جنگ بندی پر منتج ہو؛مذاکرات کرنے والے فریقین کو آمادہ رکھا جائے کہ وہ سیاسی تصفیہ کی طرف پیش قدمی جاری رکھیں؛ اور تنازعہ کے بعد افغانستان میں تعمیر نو اور معاشی ترقی کے لئے لائحہ عمل تیار کریں جس میں نظام الاوقات کے تعین کے ساتھ افغان مہاجرین کی واپسی شامل ہو۔

’ایس۔سی۔او ‘ اور اس کے ارکان جو افغانستان کے ہمسائے اور خطے کے ممالک پر مشتمل ہیں، ایک نہایت اہم پلیٹ فارم ہے۔ ’ایس۔سی۔او‘ کے اندر میلاپ اور خوش حالی میں افغانستان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

افغانستان میں امن واستحکام کا تعلق ’ایس۔سی۔او‘ ریاستوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور چار ’ایس۔سی۔او‘ ممالک سے اس کی سرحدیں جڑی ہوئی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ’ایس۔سی۔او‘ ماسکو اعلامیہ 2020 میں ’سیاسی مذاکرات اور اجتماعیت کے حامل امن عمل‘ کی اہمیت کو اجاگر کیاگیا ہے۔

پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم (ایس۔سی۔او) کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے اور درج ذیل شعبہ جات میں کاوشوں کا متمنی ہے:
بین الافغان مذاکرات کی حمایت کی جائے تاکہ تمام افغانوں کو قبول مذاکرات کے ذریعے سیاسی تصفیہ کی راہ ہموار ہو؛ اورافغانستان میں تنازعے کے خاتمے کے بعد افغانستان اور ’ایس۔سی۔او‘ ارکان کے درمیان معاشی تعاون اور انہیں آپس میں جوڑنے کا عمل شروع ہو۔

آخر میں، میں یہ اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان اور ’ایس۔سی۔او‘ افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کا مشترک مقصد رکھتے ہیں جس میں جاری افغان عمل کی حمایت اور خطے میں معاشی ترقی کو تقویت دینے کے لئے روابط استوار کرنا شامل ہے۔

بین الافغان مذاکرات کی مثبت رفتار کو لازما برقرار رکھنا ہوگا اور اس تاریخی موقع کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے۔ افغانستان میں امن پورے خطے کی اشد ضرورت ہے اور ہماری مشترک ذمہ داری بنتی ہے۔ ہمیں افغان عوام کومایوس نہیں ہونے دینا۔ میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

Leave a reply