8 فروری کو پاکستان میں عام انتخابات ہوں گے،سپریم کورٹ کا حکمنامہ

ہر آئینی ادارہ بشمول الیکشن کمیشن اور صدر آئین کے پابند ہیں
0
142
supreme court01

سپریم کورٹ میں انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی

اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے،اور کہا کہ صدر مملکت سے ہونے والی ملاقات کے منٹس عدالت کو پیش کرنے ہیں ،
ہم نے منٹس فائل کردیئے ہیں،جواب کے صفحہ دو پر صدر کو لکھا گیا خط ہے،عدالت کے حکم پر اٹارنی جنرل نے لکھے گئے خط پڑھے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ خط میں یہ آگسٹ کا لفظ سپریم کورٹ کےلئے کیوں لکھا ہے،آئین میں ایسا کچھ نہیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ ممبران میں نثار درانی سندھ سے، شاھد جتوئی بلوچستان سے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کے جواب میں صدر کے دستخط کہاں ہیں؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر نے مجھے خط لکھا ہے، وہ تھوڑی دیر میں میرے پاس آجائیگا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے آج آپ کو اتنا وقت دیا ہے ،دیکھیں آپ حکومت کے نمائندے ہیں،صدر نے ابھی تک یہ نہیں لکھا کہ میں راضی ہوں یا کچھ اور، آپ کو صدر کی جانب سے جو بھی دستاویز آئے وہ ہمیں بھجوا دیجئے گا،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اس کیس میں کوئی آئینی تشریح کی ضرورت نہیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر مملکت کی جانب سے کل کی ملاقات کی ایک پریس ریلیز جاری کی گئی تھی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں اس معاملے میں مثبت سوچ رکھنی چاہیئے، ہمیں بہتری کی کوشش کرنی چاہیئے،آپ کے پاس جب صدر کا جواب آئے تو بتائیے گا، ہم اٹھ کر جارہے ہیں پھر واپس آئیں گے، صدر کے جواب آنے تک کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا گیا

سپریم کورٹ میں انتخابات کیس کی دوبارہ سماعت ہوئی،اٹارنی جنرل پاکستان ایوان صدر سے سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت پہنچ گئے،سماعت سے قبل اٹارنی جنرل کی چیف جسٹس سے ملاقات ہوئی،اٹارنی جنرل نے صدر مملکت کا خط چیف جسٹس کو دیا، چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کمرہ عدالت پہنچ گیا،اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے،اٹارنی جنرل نے صدر مملکت کا خط سپریم کورٹ میں پیش کردیا،صدر مملکت کی جانب سے 8 فروری 2024 کی انتخابات کی تاریخ دینے پر رضامندی ظاہر کی گئی، الیکشن کمیشن نے جواب میں کہا کہ الیکشن کمیشن 8 فرروری کو قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کرائیگا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا اس پر کسی کو اعتراض ہے؟ اس پر صدر اور الیکشن کمیشن کے ممبران بھی مطمئن ہیں؟ کیا آپ سب خوش ہیں، کسی کو کوئی اعتراض تو نہیں؟کمرہ عدالت میں موجود پی ٹی آئی کے وکیل سمیت کسی درخواست گزار نے اعتراض نہیں کیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہر کوئی اس ملک میں انتخابات چاہتا ہے، سب لوگ بیٹھ جائیں آرڈر لکھوانے میں وقت لگے گا

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کسی نے بھی آئینی شق کا حوالہ نہیں دیا، اس نقطے پر بحث پھر کبھی کریں گے، عدالت نے تحریری حکمنامہ شروع کردیا،حکمنامہ میں کہا گیا کہ 2 نومبر 2023 کی ملاقات کے بعد انتخابات کی تاریخ پر اتفاق کیا گیا ، قومی اسمبلی وزیراعظم کی ایڈوائس پر 9 اگست کو تحلیل ہوئی ، یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے، قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد انتخابات کی تاریخ پر الیکشن کمیشن اور صدر مملکت میں اختلاف ہوا، وکیل تحریک انصاف علی ظفر کے مطابق صدر مملکت نے 13 ستمبر کو الیکشن کمیشن کو خط لکھا، صدر نے خط میں لکھا کہ الیکشن کمیشن صوبائی حکومتوں سے مشاورت کر کے تاریخ کا اعلان کرے، صدر کے اس خط پر الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا، سپریم کورٹ کا تاریخ دینے کے معاملے پر کوئی کردار نہیں، صدر مملکت ملک کا اعلی عہدہ ہے، حیرت ہے کہ صدر مملکت اس نتیجے پر کیسے پہنچے، تاریخ دینے کا معاملہ سپریم کورٹ یا کسی اور عدالت کا نہیں، صدر مملکت کو اگر رائے چاہیے تھی تو 186آرٹیکل کے تحت رائے لے سکتے تھے،

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تمام ایڈووکیٹ جنرلز کمرہ عدالت میں موجود ہین؟ ایڈووکیٹ جنرلز روسٹرم پر آگئے،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کسی کو انتخابات کی تاریخ پر اعتراضات تو نہیں؟ایڈوکیٹ جنرلز نے جواب دیا کہ انتخابات کی تاریخ پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں، حکمنامہ میں کہا کہ کسی ایڈووکیٹ جنرل نے انتخابات کی تاریخ پر اعتراض نہیں کیا، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہی، اعلیٰ آئینی عہدہ ہونے کے ناطے صدر مملکت کی ذمہ داری زیادہ بنتی ہے،پورا ملک اس شش و پنج میں تھا کہ ملک میں عام انتخابات نہیں ہو رہے، آئین اور قانون پر عملدرآمد ہر شہری پر فرض ہے،ہر آئینی ادارہ بشمول الیکشن کمیشن اور صدر آئین کے پابند ہیں، آئین کی خلاف ورزی کے سنگین نتائج ہوتے ہیں، آئین پر علمداری اختیاری نہیں صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کی وجہ سے غیر ضروری طور پر معاملہ سپریم کورٹ آیاسپریم کورٹ آگاہ ہے ، صدر اور الیکشن کمیشن کے انتحابات کی تاریح نہ دینے سے پورا ملک بے چینی کا شکار ہوا،یہ خدشہ پیدا ہوا کہ شاید انتحابات ہوں گے ہی نہیں۔ عدالت کو اداروں کا کردار نہیں اپنانا چاہییے،عدالت نے صدر اور ای سی پی کو کسی نتیجے تک پہنچنے میں سہولت فراہم کی جس کے پاس جتنا بڑا عہدہ ہوتا ہے اسکی ذمہ داری بھی،آئین میں صدر اور الیکشن کمیشن ممبران کے حلف کا ذکر موجود ہے۔آئین کو بنے ہوئے پچاس سال ہو چکے ہیں۔حکمنامہ یہ باتیں کی گئیں کہ ملک میں انتخابات کبھی نہیں ہوں گے یہ آئین کی سکیم ہے کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار نہیں ہے،سپریم کورٹ صرف سہولت کار کے طور پر صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کے درمیان مشاورت کا کہہ سکتی ہے،یہ عدالت صرف یہ کہہ سکتی ہے کہ ہر ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں،

سپریم کورٹ نے حکمنامہ میں کہا کہ آئین سے انحراف کا کوئی آپشن کسی آئینی ادارے کے پاس موجود نہیں، آئین کو بنے 50 سال گزر چکے، اب کوئی ادارہ آئین سے لاعلم ہونے کا نہیں کہہ سکتا، 15 سال قبل آئین کو پامال کیا گیا، انتخابات کے سازگار ماحول پر بہتری ہر شہری کا بنیادی حق ہے یہ ذمہ داری اُن پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے یہ حلف اُٹھا رکھا ہے چیف الیکشن کمشنر، ممبران اور صدرمملکت حلف لیتے ہیں عوام کو صدر یا کمیشن آئین کی عملداری سے دور نہیں رکھ سکتے.حادثاتی طور پر پاکستان کی تاریخ میں پندرہ سال آئینی عملداری کا سوال آیا اب وقت آ گیا ہے کہ ہم نہ صرف آئین پر عمل کریں بلکہ ملکی آئینی تاریخ کو دیکھیں ،آئینی خلاف ورزی کا خمیازہ ملکی اداروں اور عوام کو بھگتنا پڑتا ہے ،عدالتوں کو ایسے معاملات کا جلد فیصلہ کرنا پڑے گا ،قومی اسمبلی اس وقت تحلیل ہوئی جب وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد آئی ،وزیراعظم کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں تھا،اس وقت کے وزیراعظم نے اسمبلی تحلیل کر کے آئینی بحران پیدا کر دیا ،تحریک عدم اعتماد کے بعد ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوا،عدالت نے سیاسی معاملے پر از خود نوٹس لیا، صدر مملکت نے تحریک عدم اعتماد کے بعد قومی اسمبلی تحلیل کی جو غیر آئینی عمل تھا، تحریک عدم اعتماد کے بعد صدر، وزیراعظم کی ہدایت پر اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتے،سپریم کورٹ نے متفقہ فیصلہ کیا کہ پی ٹی آئی دور میں قومی اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ غیر آئینی تھا،اس وقت کے وزیر اغظم اور صدر مملکت نے جو کیا وہ ان کے اختیار میں نہیں تھااس فیصلے میں دو ججز نے صدر مملکت کے نتائج پر بات کی، اس فیصلہ میں کہا گیا کہ عوامی منتخب نمائندوں کو عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنے سے روکا گیا، چیف جسٹس نے حکمنامہ میں تین نومبر کی ایمرجنسی کا ذکر بھی کر دیا اور کہا کہ آج سے پندرہ سال پہلے آج ہی کے دن آئین پامال ہوا،آئین کی پامالی کا خمیازہ ملک اور عوام کو بھگتنا پڑا۔اسمبلی تحلیل کیس میں ایک جج نے کہا کہ صدر مملکت پر پارلیمنٹ آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرے،عجیب بات ہے صدر مملکت نے وہ اختیار استعمال کیا جو ان کا نہیں تھا،عجیب بات ہے صدر مملکت نے وہ اختیار استعمال نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا،آئین پر شب خون مارنے کی تاریخ سے سیکھنا ہوگا کہ اِس کے عوام اور ملکی جغرافیائی حدود پر منفی اثرات پڑے،غیر آئینی طور پر اسمبلی تحلیل کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے، صرف عوام کے مفاد میں آئینی ادارے اہم فیصلے کر سکتے ہیں، امید کرتے ہیں تمام آئینی ادارے مستقبل میں سمجھداری کا مظاہرہ کریں گے،

سپریم کورٹ نے حکمنامہ میں کہا کہ انتخابات کی تاریخ پر اتفاق ہوا ہے ،وقت پر ہوجانے چاہئیں،اس پر منیر احمد نامی شخص کو پریشانی ہوسکتی ہے،منیر احمد ایسے شخص ہیں جس کے لئے وکلا پیش ہونا چاہتے ہیں،منیر احمد ایک پُراسرار شخص ہیں، ہم نے انتخابات کے انعقاد کیلئے سب کو پابند کر دیا،کوئی رہ تو نہیں گیا،میڈیا پر انتخابات سے متعلق مایوسی پھیلانے پر اٹارنی جنرل پیمرا کے ذریعے کارروائی کروائیں،اگر کسی سے فیصلے نہیں ہو پا رہے تو وہ گھر چلا جائے،جس اینکر کو بھی انتخابات وقت پر نہ ہونے کا خدشہ ہے وہ ذاتی محفلوں یا اہلیہ کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کریں ،اگر میڈیا نے شکوک شبہات پیدا کیے تو وہ بھی آئینی خلاف ورزی ہوگی، آزاد میڈیا ہے ہم ان کو بھی دیکھ لیں گے،کسی اینکر یا رپورٹر کو اجازت نہیں کہ مائیک پکڑ کر عوام کو گمراہ کرے، میڈیا انتخابات پر اثرانداز ہوا تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی،میڈیا کو منفی کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے،انشاء اللہ انتخابات آٹھ فروری کو ہی ہوں گے آپ نظر رکھیں الیکشن کے حوالے سے کوئی منفی خبر چلائے تو ان کے خلاف ایکشن لیں ،یہ کوئی نہ سوچے کہ انتخابات کی تاریخ عدالت نے دی ہے،ہمیں مثبت سوچ رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا،لائیٹر نوٹ پر سماعت ختم کررہا ہوں کہ انتخابات بخیر و عافیت سے ہونگے،اٹارنی جنرل نے بھی 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد پرکوئی اعتراض نہیں کیا، صدر مملکت اور الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کیلئے پورے ملک کی تاریخ دے دی، وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے اتفاق کیا کہ انتخابات کا انعقاد بغیر کسی خلل کے ہو گا،اُمید ہے تمام تیاریاں مکمل کرکے الیکشن کمیشن شیڈول جاری کرے گا،8 فروری کو پاکستان میں عام انتخابات ہوں گے،

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ عدالت آئین و قانون کی کسی خلاف ورزی کی توثیق نہیں کر رہی،الیکشن کمیشن یقینی بنائے کہ 8 فروری کو انتخابات ہر صورت ہوں، الیکشن کمیشن ہر قدم قانون کے مطابق اٹھائے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے عدالت کا دوستانہ چہرہ دیکھا ہے دوسرا چہرا ہم دکھانا نہیں چاہتے،

سپریم کورٹ نے حکمنامہ کیساتھ تمام درخواستیں نمٹا دیں

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نےسماعت کی،جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بنچ میں شامل ہیں،سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو صدر مملکت سے مشاورت کرنے کی ہدایت کی تھی ،الیکشن کمیشن صدر سے مشاورت کے بعد انتخابات کی تاریخ کے حوالے عدالت کو آگاہ کرے گا ،الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز عدالت کوگیارہ فروری کے روز انتخابات کرانے کی تاریخ دی ہے ،رات گئے الیکشن کمیشن اور صدر مملکت کے درمیان عدالتی حکم پر ملاقات ہوئی

Comments are closed.