چیف جسٹس کے بغیرکوئی جج از خود نوٹس نہیں لے سکتا،چیف جسٹس

supreme

سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن التوا کیس کی سماعت ہوئی

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراپی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی ، وکلا کی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود تھی، سپریم کورٹ نے حکومتی وکلاء کو سننے سے انکار کردیا ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم ابھی آپ کو نہیں سن رہے،ہمیں معلوم ہے حکومتیں کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کرتیں، اگر آپ بائیکاٹ نہیں کر رہے تو تحریری طور پر بتائیں، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں نے بائیکاٹ نہیں کیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ پھر کس نے بائیکاٹ کیا؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں، فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں کہا کہ جی کارروائی کا حصہ ہیں، ہم نے تو بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اخبار میں تو کچھ اور لکھا تھا ،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ ایک طرف بینچ پر اعتراض کرتے ہیں دوسری طرف کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں ، ، حکومتی اتحاد اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں،جو زباں اس میں استعمال کی گئی ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں؟ حکومت عدالت کا بائیکاٹ کرسکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ حکومت بائیکاٹ نہیں کرسکتی، حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ہمیں ایسی ہی توقع تھی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ بہت تیز جا رہے ہیں، سٹیپ بائی سٹیپ آگے چلیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک معاملے پر اپنا فیصلہ سنا چکی ہے، اس فیصلے پر عملدر آمدضروری ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو عدالتی کاروائی کا حصہ نہ بنیں،بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں، وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ وکالت نامہ واپس لینے تک وکیل دلائل دے سکتے ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وکلالت نامہ دینے والوں نے ہی عدم اعتماد کیا ہے، اکرم شیخ وکیل نے کہا کہ وکیلوں کا عدالت آنا ہی اعتماد ظاہر کرتا ہے ،عدالت نے سیاسی جماعتوں کے وکلا کو بیٹھنے کی ہدایت کردی

اٹارنی جنرل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے، صدر کو کے پی میں تاریخ دینے کی بھی استدعا کی گئی ہے، درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے، فیصلے میں عدالت نے پنجاب کے لیے صدر اور کے پی کے لیے گورنر کو تاریخ دینے کا کہا تھا ،گورنر کے پی کے نے درخواستیں دائر ہونے تک کوئی تاریخ نہیں دی تھی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا یے؟ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے،1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکم جاری کرتی ہے، جس حکم نامے کا ذکر کرر ہے ہیں اس پر عمل ہو چکا ہے ، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کا ہے، عدالتی حکم الیکشن کمیشن پر لازم تھا، الیکشن کمیشن کا حکم برقرار رہا تو باقی استدعائیں ختم ہو جائیں گی، اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ پہلے راؤنڈ میں نو رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا ، اٹارنی جنرل 21 فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا، دو ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں دو ججز نے پہلے دن درخواستیں خارج کر دی تھیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک جج نے درخواست خارج کی تھی ، جسٹس اطہر من اللہ نے شاید نوٹ میں درخواست خارج کرنے کا نہیں لکھا، اٹارنی جنلرل نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس اطہر من اللہ سے اتفاق کیا تھا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کا نقطہ نظر سمجھ گئے ہیں،

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے تفصیلی نوٹ کتنے رکنی بینچ کے تھے؟ کتنے رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا؟ 27 فروری کو 9 رکنی بینچ نے ازسرنو تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا، عرفان قادر نے اٹارنی جنرل کے کان میں سرگوشی کی جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا عرفان قادر اٹارنی جنرل کو بچانے آئے ہیں؟ عرفان قادر نے کہا کہ 15 سیکنڈز کا معاملہ ہے،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ تین منٹ سے پندرہ سیکنڈ پر آگئے ؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب بینچ دوبارہ تشکیل ہوا تو پانچ رکنی تھا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسارکیا کہ کیا چیف جسٹس کوئی بھی پانچ ججز شامل نہیں کرسکتے تھے؟ اٹارنی جنرل نے عدالت مین کہا کہ آپ کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں،اٹارنی جنرل نے بینچ کی تشکیل پر دلائل دیئے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کوئی ایسا کیس مجھے نہیں ملا جس میں چیف جسٹس کو بینچ تبدیل کرنے سے روکا گیا ہو،اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ پشاور کا کیس ہے جس میں چیف جسٹس کو مرضی کے بنچ سے روکا گیا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس پہلے والے اراکین شامل کرنے کے پابند نہیں تھے،جس عدالتی فیصلے کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ اقلیتی ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کو بھی کوئی عدالتی حکم نہیں تھا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں پانچ رکنی بینچ بنا نہیں تھا،ججز میں ہم آہنگی سپریم کورٹ کیلئے بہت اہم ہے،ججز کے بہت سے معاملات آپس کے ہوتے ہیں،عدالتی کارروائی پبلک ہوتی ہے لیکن ججز کی مشاورت نہیں،تفصیلی اختلافی نوٹ بینچ کے ازسرنو تشکیل کا نقطہ شامل نہیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوٹ کے مطابق بینچ کی ازسرنو تشکیل انتظامی اقدام تھا،نوٹ کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے سماعت سے معذرت کی تھی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نوٹ کے مطابق چار ججز نے خود کو بینچ سےالگ کیا، بہتر طریقہ یہ تھا کہ لکھتے کہ چار ججز کو بینچ سے نکالا گیا،نو رکنی بینچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کون رضاکارانہ الگ ہورہا ہے، کسی نے بینچ سے الگ ہونا ہو تو جوڈیشل آرڈر لکھا جاتا ہے،کوئی شق نہیں کہ جج کو بینچ سے نکالا نہیں جاسکتا، عدالت بینچ کی ازسرنو تشکیل کا حکم دے تو اسے نکالنا نہیں کہتے،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ازسرنو تشکیل میں تمام پانچ نئے ججز آجاتے تو کیا ہوتا؟ کیا نیا بینچ پرانے دو ججز کے فیصلوں کو ساتھ ملا سکتا ہے؟ نیا بینچ تشکیل دینا جوڈیشل حکم تھا انتظامی نہیں،

اٹارنی جنرل نے کہا کہ دو ججز نے جو رائے دی تھی اسے الگ نہیں کیا جاسکتا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کہا وہ اپنی شمولیت چیف جسٹس پر چھوڑتے ہیں،بینچ کا کوئی رکن بھی نہ ہو تو سماعت نہیں ہوسکتی، پانچ رکنی بینچ نے دو دن کیس سنا، کسی نے کہا دو ارکان موجود نہیں؟ کیا کسی نے یہ کہا کہ بینچ سات رکنی ہے؟ پہلی سماعت پر کوئی جج درخواست خارج کردے پھر بینچ میں نہ بیٹھے تو کیا فیصلہ نیا بینچ کرے گا؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دو ججز کی رائے کے بعد نیا بینچ بنا اور ازسرِنو سماعت ہوئی، بینچ ارکان نے دونوں ججز کے رکن ہونے کا نقطہ نہیں اٹھایا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ چار آراء کے مطابق درخواستیں خارج ہوئی ہیں، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کا نقطہ سمجھ گئے اگلے نقطے پر آئیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ زیر حاشیہ میں بھی لکھا کہ دو ججز کی آراء ریکارڈ کا حصہ ہے فیصلے کا نہیں، ریکارڈ میں تو متفرق درخواستیں اور حکمنامے بھی شامل ہوئے ہیں، ابھی تک آپ ہمیں اس نقطے پر قائل نہیں کرسکے،

اٹارنی جنرل نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت میں رائے کس کی ہے،حل یہ ہے کہ جنہوں نے پہلے مقدمہ سنا وہ اب بنچ سے الگ ہوجائیں، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کا نقطہ نوٹ کرلیا ہے، اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ ججز نے کہا کہ آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں ہوا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکمنامے میں ایسا کچھ نہیں لکھا، نوٹ آپ پڑھ رہے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 31 مارچ کو ایک سرکولر جاری کیا،سرکولر میں سپریم کورٹ کا فیصلہ ختم کر دیا گیا،جسٹس قاضی فائز عیسی کا فیصلہ کیسے سرکولر سے ختم ہوسکتا ہے ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سرکولر میں از خود نوٹس کے انتظامی احکامات کو موخر کیا گیا،سرکولر میں کسی عدالتی فیصلے کو مسترد نہیں کیا،سرکلر میں لکھا ہے کہ پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تھی،مقدمات سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پر سرکلر آیا ہے ،جسٹس فائز عیسی کے فیصلے میں کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا، چیف جسٹس کے بغیر کوئی جج از خود نوٹس نہیں لے سکتا،

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 184/3 کے تحت درخواستوں کے حوالے سے رولز موجود ہیں،ازخود نوٹس پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ موجود ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فیصلہ میں لکھا ہے کہ مناسب ہوگا کہ 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکی جائے29 مارچ کے فیصلہ میں ہدایت نہیں بلکہ خواہش ظاہر کی گئی ہے عوام کے مفادات میں مقدمات پر فیصلے ہونا ہیں ناں کہ سماعت موخر کرنے سے،فیصلہ میں تیسری کیٹگری بنیادی حقوق کی ہے،بنیادی حقوق تو 184/3 کےہر مقدمےمیں ہوتے ہیں، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا یہ آئینی درخواست نہیں ہے جس کے رولز بنےہوئے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ مقدمہ میں بنیادی حقوق کا زکر ہے، موجودہ کیس تیسری کیٹگری میں آ سکتا ہے،رولز بننے تک سماعت موخر کی جائے،جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئینی درخواست کے رولز بنے ہوئے ہیں تو کاروائی کیسے موخر کریں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ کو پھر بھی سرکولر کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے رواں سال میں پہلا سوموٹو نوٹس لیا تھا،دو اسمبلیوں کے سپیکرز کی درخواستیں آئی تھیں،سپیکر ایوان کا محافظ ہوتا ہے،ازخود نوٹس کے لئے بنچ کا نوٹ بھی پڑا ہوا تھا از خودنوٹس لینے میں ہمیشہ بہت احتیاط کی ہے

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس بات سے متفق نہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184/3 کے مقدمات سے مختلف ہے،جن کے رولز بنے ہیں ان مقدمات پر کیسے کارروائی روک دیں؟ 184/3 کے دائرہ اختیار پر بہت سخت طریقہ کار بنایا ہوا ہے،دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج میں فل کورٹ کی تشکیل کے لئے درخواست لایا ہوں، کچھ دن پہلے میڈیا میں غلط رپورٹ ہوا کہ میری فل کورٹ کی درخواست مسترد ہوئی،جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک طرف فل کورٹ کی بات کرتے ہیں،دوسری طرف کیس موخر کرنے کا کہہ رہے، آپ اپنا ایک ذہن بنا لیں کہ عدالت سے چاہتے کیا ہیں،پہلے طے تو کر لیں سماعت ہوسکتی ہے یا نہیں،اپ کا مؤقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کرسکتا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ کی استدعاء فی الوقت مسترد کی تھی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا، کیسے ہوسکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مقدمہ سنیں؟ جسٹس امین الدین خان نے فیصلے پر صرف دستخط کیے تھے سماعت سے معذرت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ ہوگا،سماعت سے انکار تو فرض نہیں کیا جاتا، یہ جوڈیشل آرڈر ہوتا ہے،تمام پندرہ ججز مختلف آراء اپنانے پر مقدمہ نہیں سن سکتے، آپ نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعاء نہیں کی ،آپ کی زیادہ سے زیادہ استدعاء فل لارجر بینچ کی ہوسکتی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ لارجر بینچ کی استدعا آگے جاکر کروں گا،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کسی جج کو بینچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضاکارانہ الگ ہوا، 9 ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا، 27 فروری کے نو ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بینچ سے کون الگ ہوا؟ عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی، جسٹس فائز عیسیٰ کا حکم خوبصورت لکھا گیا یے، فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہو سکتی ہے لیکن فل بینچ نہیں، گزشتہ تین دن میں سینیر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں ،لارجر بینچ کے نکتے پر دلائل دینا چاہیں تو ضرور دیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو ججز نو رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پر مشتمل بینچ بنایا جائے ،3/2 اور 3/4 کا فیصلہ باقی دو ججز کو کرنے دیا جائے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک فیصلہ تین رکنی اکثریت نے دیا ایک دو رکنی اقلیت نے، بنیادی اصول مقدمہ کی سماعت ہے، سنے بغیر فیصلہ محدود نوعیت کا ہی ہوسکتا ہے، سماعت کے بعد کیے گئے فیصلے کا ہی وجود ہوتا ہے، کورٹ فیس ادا نہ کرنے پر بھی تو مقدمہ خارج ہوجاتا یے، نظرثانی اکثریتی فیصلے کی ہوتی ہے، جن ججز کے نوٹ کا حوالہ دے رہے ہیں کیا وہ پانچ رکنی بینچ میں تھے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدالتی حکم کے بغیر کوئی فیصلہ قابل عمل نہیں ہوتا،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دو الگ الگ بینچز نے الگ الگ کارروائی کی تھی،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپ احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے بہترین دلائل دے رہے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ صورتحال سب کیلئے ہی مشکل ہے،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کہاں ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکریٹری خزانہ رپورٹ کے ہمراہ عدالت میں موجود ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اصل مسئلہ سیکیورٹی ایشو ہے، دونوں افسران کو سن کر بھیج دیتے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ حساس معاملہ ہے، سیکیورٹی معاملات ہر ان کیمرا سماعت کی جائے،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ فائلز دے دیں ہم جائزہ لے لیتے ہیں،فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں بلکہ نیوی اور ائیر فورس کا بھی ہے، بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ائیر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے، الیکشن کمیشن کہتا ہے 50 فیصد پولنگ سٹیشنز محفوظ ہیں، فوج میں ہر یونٹ یا شعبہ جنگ کیلئے نہیں ہوتا، عدالت نے وہ کام کرنا ہے جو کھلی عدالت میں ہو، کوئی حساس چیز سامنے آئی تو چیمبر میں سن لیں گے، کوئی اکر کہے تو صحیح کہ کتنے سیکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام چیزیں ریکارڈ پر موجود ہیں، الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کچھ وجوہات بتائی ہیں،

سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ر حمود الزمان روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حساس معلومات نہیں لیں گے، مجموعی صورتحال بتا دیں، فی الحال پنجاب کا بتائیں کیونکہ کے پی کے میں ابھی تاریخ ہی نہیں آئی، کیا پنجاب میں سیکورٹی حالات سنگین ہیں، سیکرٹری دفاع نے عدالت میں کہا کہ پنجاب میں سیکورٹی حالات سنگین ہیں، کھلی عدالت میں تفصیلات نہیں بتا سکتا، نہیں چاہتے معلومات دشمن تک پہنچیں، عدالت نے علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کا کہ ان چیمبر سماعت پر آپکا کیا موقف ہے؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ اہلکار دے دیں تو انتحابات کروا سکتے ہیں، سیکورٹی اہلکار صرف ایک دن کے لیے دستیاب ہو سکتے ہیں سیکورٹی کا ایشو رہے گا آئینی ضرورت نوے دن کی ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ سیکیورٹی اہلکار کون دے گا؟ وال یہ ہے کہ اٹھ اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا الیکشن کمیشن کو لڑنے والے اہلکار درکار ہیں؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے پنتالیس فیصد پولنگ سٹیشنز کو حساس قرار دیا ہے،جھنگ ضلع پہلے حساس ہوتا تھا اب نہیں، جنوبی پنجاب اور کچے کا علاقہ بھی حساس تصور ہوتا ہے،سیکرٹری دفاع نے کہا کہ ریزور فورس موجود ہے جسے مخصوص حالات میں بلایا جاتا ہے، ریزور فورس کو بلانے کا طریقہ کار موجود ہے،ریزرو فورس کی طلبی کیلئے وقت درکار ہوتا ہے،ریزرو فورس کی تربیت بھی کی جاتی ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فوج کی بڑی تعداد بارڈرز پر بھی تعینات ہے، الیکشن ڈیوٹی کیلئے کمبیٹ اہلکاروں کی ضرورت نہیں ہوتی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سیکرٹری دفاع سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کل نہیں ہونے پورا شیڈول آئیگا، وکیل علی ظفر نے کہا کہ پیرا ملٹری فورسز، بحری اور ہوائی فورسز سے بھی معلومات لیں،

عدالت نے سیکریٹری دفاع سے دو گھنٹے میں تحریری رپورٹ طلب کرلی،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جو زبانی بریفنگ دینا چاہتے ہیں وہ لکھ کر دے دیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سیکرٹری دفاع کو ہدایت کی کہ اپنی پوری کوشش کریں، سیکریٹری دفاع نے کل تک مہلت مانگ لی،عدالت نے سیکریٹری دفاع کو کل تک کی مہلت دیدی،سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی گئی،جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ رپورٹ بھی حساس ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے تناظر میں ہے،سیکریٹری خزانہ طبیعت ناساز ہونے کے باعث پیش نہیں ہوسکے،ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ عامر محمود عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے،کرنٹ اکاؤنٹ اور مالی خسارہ کم کیا جارہا ہوگا، آمدن بڑھا کر اور اخراجات کم کر کے خسارہ کم کیا جاسکتا ہے،کون سا ترقیاتی منصوبہ 20 ارب روپے سے کم ہے ،درخواست گزار کے مطابق ارکان کو 170 ارب روپے کا فنڈ دیا جارہا ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ اکتوبر 2022 کی بات ہے،ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے تحت فنڈز پلاننگ کمیشن جاری کرتا ہے،ترقیاتی فنڈز پر کوئی کٹ نہیں لگایا گیا،

اسد عمر نے کہا کہ خسارے کا ٹارگٹ جی ڈی پی 4.97فیصد ہے۔بیس ارب روپیے کا خسارے کے ٹارگٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ریونیو بڑھانے میں زیادہ وقت لگے گا۔ کس شعبے سے اخراجات کم کیے جاسکتے ہیں۔ اسد عمر نے کہا کہ ترقیاتی اخراجات سات سو ارب روپے ہیں۔ابھی تک چار سو پچاس ارب روپیے خرچ ہونا باقی ہیں حکومت نے اٹھ ماہ میں صرف دو سو ارب روپے خرچ کیے ہیں۔ ترقیاتی اسکیموں کے لیے حکومت نے مزید اٹھ ارب روپیے ترقیاتی اخراجات میں شامل کیے ہیں۔ کیسے ممکن ہے سات سو ارب روپے کے بجٹ سے اکیس ارب روپے نہ نکالے جا سکتے ہوں۔آئینی تقاضا اہم ہے یا سڑکیں بنانا؟ اس سے بڑا کوئی مذاق نہیں ہو سکتا۔ اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ الیکشن پہلے ہو جائیں تو پورا چار سو پچاس ارب بچ سکتا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ حکومت نے کہا کسی سے بات نہیں کریں گیے۔عدالت فیصلہ کرے چار سو پچاس ارب روپے خرچ نہ ہونے کیوجہ اخراجات میں کمی ہے۔ ترقیاتی اخراجات کم نہیں کرنے توغیر ترقیاتی اخراجات کم کر دیں ،ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ آپریشنل اخراجات اورتنخواہیں ہی غیر ترقیاتی اخراجات ہوتے ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا تنخواہوں میں کمی نہیں کی جا سکتی؟ ججز سے تنخواہیں کم کرنا کیوں شروع نہیں کرتے،الیکشن کمیشن کو بھی اخراجات کم کرنے کا کہیں گے، قانونی رکاوٹ ہے تو عدالت ختم کردے گی، حکومت نے اخراجات کم کرنے کیلٸے اقدامات کٸے ہیں ،اٹارنی جنرل نے کہا کہ آٸینی تقاضہ پورا کرنے کیلٸے آرٹیکل 254 ہے ، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ مثال بن گٸی تو ہمیشہ مالی مشکلات پر الیکشن نہیں ہوا کرینگے ، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آٸندہ مالی سال کے بجٹ میں پیسے رکھیں گے،

قبل ازیں فواد چوہدری چیف جسٹس کے رو برو پیش ہوئے اور کہا کہ ریڈ زون میں وکلاء کو آنے سے روکا جارہا ہے ،ریڈ زون کے داخلی راستے سیل کر دئے گئے ہیں،لگتا ہے ہم غزہ میں ہیں، وکلاء کو بھی آنے سے روکا جا رہا ہے، ریڈی زون کے داخلی راستوں پر جھگڑے ہو رہے ہیں، چیف جسٹس نے فواد چوہدری کی ریڈ زون کے داخلی راستے کھلوانے کی استدعا مسترد کر دی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اور انتظامیہ اپنے سکیورٹی اقدامات کر رہی ہے، کیس کی سماعت کر رہے ہیں، ہزاروں وکلاء کا آنا ضروری نہیں،وکلاء کو آپ نے کال دی ہے تو ان سے بات کریں، فواد چودھری نے کہا کہ ہم نے کسی کو کال نہیں دی،وکلاء کا کنونشن ہے اس کیلئے بھی روکا جا رہا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا اس سب سے کیا لینا دینا؟ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سوموٹو پر پہلے ہی مسائل بنے ہوئے ہیں، آپ پھر سے سوموٹو لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی احاطے میں معمول کی شناخت کے بعد وکلاء آ سکتے ہیں، خاتون وکیل نے شکایت کی کہ کمرہ عدالت نمبر ایک میں بھی آنے نہیں دیا جا رہا،جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گنجائش کے مطابق ہی کمرہ عدالت میں داخلے کی اجازت ہوگی،ہر وکیل کو کمرہ عدالت میں آنے کی اجازت نہیں ہوگی،

اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے سابق صدر شعیب شاہین نے بھی راستوں کی بندش کی چیف جسٹس سے شکایت کردی، شعیب شاہین نے کہا کہ سپریم کورٹ کورٹ میں مقدمات کیلئے بھی وکلا کو نہیں آنے دیا جا رہا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیس چلنے دیں ،انتظامیہ کیلئے پریشانی نہ بنائیں ،انتظامیہ سب انتظامات عدالت اور پرامن فضا قائم رکھنے کیلئے کر رہی ہے،اپنے ادارے کیلئے احکامات دیں گے باقیوں کیلئے نہیں،وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ 25 مئی کا واقعہ ہم سب کے سامنے ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 25 مئی کا ذکر مت کریں، 25 کی درخواست آپ لائے تھے ایک حد تک اپ بھی اسکے ذمہ دار ہیں ،

اس موقع پر سپریم کورٹ کے باہر سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں، سماعت کے موقع پر تحریک انصاف لائرز ونگ نے شاہراہ دستور پر سپریم کورٹ سے یکجہتی کے لئے ریلی کا بھی اعلان کر رکھا ہے، وکلاء کی بڑی تعداد سپریم کورٹ کے باہر پہنچ چکی ہے،وفاقی سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری دفاع سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں،

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی خصوصی بنچ سماعت کرے گا ، تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر اور الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل مکمل ہوچکے ہیں

از خود نوٹس کیس، اٹارنی جنرل نے متفرق درخواست دائر کر دی
دوسری جانب اٹارنی جنرل نے متفرق درخواست سپریم کورٹ میں جمع کروا دی جس میں مذکورہ بینچ سے مقدمہ نہ سننے کا کہا ہے یعنی بینچ پر اعتراض کیا ہے ،اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ الیکشن سے متعلق چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ کیس نہ سنے یہ کیس ان ججز کو سماعت کے لیے بھجوایا جائے جو اس کیس کا حصہ نہیں رہ چکے ہوں

وفاقی حکومت نے انتخابات کیس میں اپنا جواب جمع کرا دیا ،وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کی استدعا کر دی، وفاقی حکومت کے جواب میں کہا گیا ہے کہ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اکثریت سے دیا گیا تین رکنی بینچ متبادل کے طور پر تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت نہ کرے ،جسٹس قاضی فائز عیسی کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی درخواست موخر کی جائے۔سپریم کورٹ کے جو ججز الیکشن کیس کو سن چکے ہیں ۔انھیں نکال کر باقی ججز پر مشمتل بینچ بناجائے۔جسٹس اعجاز الاحسن پہلے راؤنڈ میں الیکشن کا کیس سننے سے انکار کرچکے ہیں۔پہلے راؤنڈ میں دیا گیا الیکشن کا فیصلہ چار تین اکژیت سے دیا گیا۔ چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر فیصلہ دینے والے بینچ کا حصہ تھے۔چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر بھی اس کیس کو نہ سنیں۔

اسلام آباد میں دہشت گردی کے خطرات ،وکلاء کے لباس میں شرپسند عناصر کے داخلے کا خدشہ ہے۔ ترجمان اسلام آباد پولیس
ترجمان اسلام آباد کیپیٹل پولیس کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں آج وہی افراد داخل ہوسکیں گے، جن کے مقدمات ہیں جن افراد کے پاس سپریم کورٹ انتظامیہ کا اجازت نامہ ہوگا وہ داخل ہوسکیں گے قانون کا احترام سب پر لازم ہے، اس کا نفاذ برابری کی سطح پر کیا جائے گا ، ریڈ زون میں تعینات پولیس اور دیگر اداروں کے ساتھ تعاون کریں، ترجمان اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں داخلے کے لئے چیکنگ کی جارہی ہے،وکلا اور صحافی سپریم کورٹ داخلے سے پہلے شناخت کروائیں۔سپریم کورٹ میں داخلے کے لیے سپریم کورٹ انتظامیہ کی اجازت لازمی ہے۔وکلاء کے داخلے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔وکلاء حضرات سے گذارش ہے کہ راستے مسدود نہ کریں۔ اور سپریم کورٹ کے سامنے پارکنگ مت کریں اس سے گاڑیوں کی آمد و رفت متاثر ہوتی ہے۔اسلام آباد میں دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں،وکلاء کے لباس میں شرپسند عناصر کے داخلے کا خدشہ ہے۔ وکلاء سے گذارش ہے کہ اپنے اردگرد وکلاء کے لباس میں غیر معروف افراد پر نظر رکھیں پولیس اہلکار دوران چیکنگ شائستگی کا مظاہرہ کریں۔وکلاء کے عدالت عظمیٰ آنے پر کوئی پابندی نہیں،عدالت عظمیٰ کے وقار کو ملحوظ خاطر رکھیں عدالتی احاطے میں داخلہ رجسٹرار سپریم کورٹ کی اجازت کے ساتھ مشروط ہے ۔سپریم کورٹ میں داخل ہونے والے صبروتحمل کا مظاہرہ کریں اور پولیس کے ساتھ تعاون کریں،شہری کسی بھی مشکوک سرگرمی کے متعلق اطلاع پکار 15 پر دیں۔

31 مارچ کو پنجاب اورخیبرپختونخوا میں الیکشن التوا کیس کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا بینچ ٹوٹ گیا تھا ، جسٹس جمال خان مندوخیل بینچ سےعلیحدہ ہوگئے اور کل کے حکم نامے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ سماعت کا حکم نامہ عدالت میں نہ تو لکھوایا گیا نہ مجھ سے مشاورت کی گئی بعد ازاں سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی تھی سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست فی الحال مسترد کر دی تھی، جس کے بعد اتحادی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پرعدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ تین رکنی بینچ پراعتماد نہیں ہے،چیف جسٹس سمیت تین رکنی بینچ کے دیگرجج صاحبان مقدمے سے دستبردار ہو جائیں

سیاسی بحران پیچھے رہ گیا، آئینی بحران نے ملک کو لپیٹ میں لے لیا

 فیصلے کی نہ کوئی قانونی حیثیت ہوگی نہ اخلاقی

 چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ کا بار بار ٹوٹنا سوالیہ نشان ہے،

 انصاف ہونا چاہیئے اور ہوتا نظر بھی آنا چاہیئے،

 عدالتوں میں کیسسز کا پیشگی ٹھیکہ رجسٹرار کو دے دیا جائے

 آئندہ ہفتے مقدمات کی سماعت کے لئے بنچز تشکیل

حکومت صدارتی حکمنامہ کے ذریعے چیف جسٹس کو جبری رخصت پر بھیجے،امان اللہ کنرانی

9 رکنی بینچ کے3 رکنی رہ جانا اندرونی اختلاف اورکیس پرعدم اتفاق کا نتیجہ ہے،رانا تنویر

Comments are closed.