کسی کو تاحیات نااہل کرنا اسلام کے خلاف ہے،چیف جسٹس

0
215
Supreme Court

سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کا معاملہ ،نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی،بینچ میں جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان شامل ہیں،جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہراورجسٹس مسرت ہلالی بینچ کا حصہ ہیں ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عزیر بھنڈاری کہاں ہیں؟ عزیر بھنڈاری روسٹرم پر آ گئے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے تین عدالتی معاونین مقرر کیے تھے،ریما عمر نے اپنا تحریری جواب بھیجوایا ہے، گزشتہ سماعت پر ہم نے ریما عمر ،عزیز بھنڈاری اور فیصل صدیقی کو عدالتی معاون مقرر کیا تھا،سجاد الحسن کے وکیل خرم رضا روسٹرم پر آ گئے، گزشتہ سماعت پر خرم رضا نے تاحیات نااہلی کے حق میں اپنی رائے دی تھی،وکیل خرم رضا نے کہا کہ یہ اپیلیں کس قانون کے تحت چل رہی ہیں،کیا آرٹیکل 187 کے تحت اپیلیں ایک ساتھ سماعت کیلئے مقرر کی گئیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اپنی درخواست تک محدود رہیں،آرٹیکل 62 ون ایف کورٹ آف لا کی بات کرتا ہے، آرٹیکل 99 ہائیکورٹ کو آرٹیکل 184/3 سپریم کورٹ کو ایک اختیار دیتا ہے،سوال یہ ہے کیا آرٹیکل 62ون ایف سپریم کورٹ کو کوئی اختیار دیتا ہے؟ وکیل خرم رضا نے کہا کہ ٹریبونل سے آنے والے فیصلے کیخلاف کیس سپریم کورٹ اپیل کے دائرہ اختیار میں سنتی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بالکل درست ، کیا 62ون ایف ٹریبونل کو بھی تاحیات نااہلی کا اختیار دیتا ہے؟ یا تاحیات نااہلی کا یہ اختیار سیدھا سپریم کورٹ کے پاس ہے؟

اگر الیکشن کمیشن تاحیات نااہل کر سکتا ہے تو اختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہو گا، چیف جسٹس
وکیل خرم رضا نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کی ڈکلئیریشن دینے کا اختیار الیکشن ٹریبونل کا ہے،آرٹیکل 62 ون ایف میں کورٹ آف لاء درج ہے، سپریم کورٹ نہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بہتر ہو گا ہمیں الیکشن ٹریبونل کے اختیارات کی طرف نہ لے کر جائیں، آرٹیکل 99 ہائیکورٹ کو آرٹیکل 184/3 سپریم کورٹ کو ایک اختیار دیتا ہے،
سوال یہ ہے کیا آرٹیکل 62ون ایف سپریم کورٹ کو کوئی اختیار دیتا ہے؟ وکیل خرم رضا نے کہا کہ ٹریبونل سے آنے والے فیصلے کیخلاف کیس سپریم کورٹ اپیل کے دائرہ اختیار میں سنتی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی نے کہا کہ آئینی عدالت اور سول کورٹ میں فرق کو نظر انداز نہیں کر سکتے، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ آئینی عدالتیں ہیں جہاں آئینی درخواستیں دائر ہوتی ہیں، الیکشن کمیشن قانون کے تحت اختیارات استعمال کرتا ہے، اگر الیکشن کمیشن تاحیات نااہل کر سکتا ہے تو اختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہو گا،

کیا سپریم کورٹ الیکشن معاملے میں اپیلٹ فورم کے طور پر کام نہیں کرتی؟چیف جسٹس
وکیل خرم رضا نے عوامی نمائندگی ایکٹ کا حوالہ دیا جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اپنی ہی معروضات کی نفی کرنے والی بات کر رہے ہیں، جب62ون ایف کے تحت کوئی ٹریبونل نہیں کرتا تو سپریم کورٹ کیسے کر سکتی ہے؟ کیا سپریم کورٹ الیکشن معاملے میں اپیلٹ فورم کے طور پر کام نہیں کرتی؟اضافی اختیار تاحیات نااہلی والا یہ کہاں لکھا ہے؟وکیل خرم رضا نے کہا کہ سپریم کورٹ ڈیکلیریشن دے سکتی ہے، جن کیسز میں شواہد ریکارڈ ہوئے ہوں وہاں سپریم کورٹ ڈیکلیریشن دے سکتی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پھر تو آپ سمیع اللہ بلوچ کیس کی حمایت نہیں کر رہے، وکیل خرم رضا نے کہا کہ میں ایک حد تک حمایت کر رہا ،

ایک الیکشن میں کوئی گریجویٹ نہ ہونے پر نااہل ہوا اور اگلی بار گریجویشن کی شرط ہی نہیں تو اگلی بار نااہل کیسے ہو گا؟چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ شروع میں تو مسلمان صرف دو چار ہی تھے، اسلام میں توبہ کا تصور موجود ہے، اسلامی احکامات کے خلاف تو کوئی استدعا یا دلیل نہیں سنیں گے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے آئین میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوئی، الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے صرف قانون کو واضح کیا گیا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک الیکشن میں کوئی گریجویٹ نہ ہونے پر نااہل ہوا اور اگلی بار گریجویشن کی شرط ہی نہیں تو اگلی بار نااہل کیسے ہو گا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالتی ڈیکلیریشن کسی نہ کسی قانون کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، وہ قانون اب کہتا ہے یہ مدت پانچ سال ہو گی،وکیل خرم رضا نے کہا کہ پارلیمانی بحث میں تسلیم کیا گیا 62 ون ایف مدت پر خاموش ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نااہلی کی یہ شقیں ایک ڈکٹیٹر نے شامل کیں درست یا غلط؟ یا تو ہم پھر ڈکٹیٹر شپ کو ٹھیک مان لیں،ایک ڈکٹیٹر آیا، دوسرا آیا، تیسرا آیا سب کو اٹھا کر پھینک دیا، منافق کافر سے بھی زیادہ برا ہوتا ہے،کافر کو پتہ نہیں ہوتا، منافق سب جان کر کررہا ہوتاہے،پارلیمنٹ نے ایک قانون کتاب بنا کر ہمیں دی، ایک شخص ٹہلتا ہوا آتا ہے کہتاہے نہیں یہ سب ختم ،آمروں نے صادق و امین والی شرط اپنے لئے کیوں نہ ڈالی،

منافق کافر سے زیادہ خطرناک ہے، پارلیمنٹرینز نےآئین بنایا، ڈکٹیٹروں نے آکر سیاست دانوں، آئین کو باہر پھینک دیا ، چیف جسٹس
وکیل خرم رضا نے آئینی ترامیم کا حوالہ دیا جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ رہنے دیں، ترامیم بھی گن پوائنٹ پر آئیں، کچھ لوگوں نے کہا چلو آدھی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے،آئین کا تقدس تب ہو گا جب اسے ہم مانیں گے، یا تو ہم کہہ لیتے ہیں کہ بندوق کا تقدس مانیں گے،یہاں بیٹھے پانچ ججز کی دانش ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں سے زیادہ کیسے ہو سکتی ہے؟ جب تک کوئی جھوٹا ثابت نہیں ہوتا ہم کیوں فرض کریں وہ جھوٹا ہے،آپ اراکین اسمبلی کو جتنی بھی حقارت سے دیکھیں وہ ہمارے نمائندے ہیں، آپ ڈکٹیٹرز کی دانش اراکین اسمبلی کی دانش پر فوقیت نہیں دے سکتے،جنرل ایوب نے آکرسب کو باہر پھینک دیا اور اپنے قوانین لائے، منافق کافر سے زیادہ خطرناک ہے، پارلیمنٹرینز نےآئین بنایا، ڈکٹیٹروں نے آکر سیاست دانوں، آئین کو باہر پھینک دیا ، واضح کیا تھا کہ انتخابات قریب ہیں ریٹرننگ افسران کا کام متاثر ہوگا، کوئی ریٹرننگ افسر عدالتی فیصلہ مانے گا اور کوئی الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترمیم، ریٹرننگ افسران وکیل نہیں بیوروکریٹ ہیں، کوشش ہے کہ جلد فیصلہ کیا جائے تاکہ ریٹرننگ افسران کنفیوز نہ ہوں،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا جعلی ڈگری پر نااہلی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہوگی؟ وکیل محمد کاشف نے کہا کہ جعلی ڈگری پر فوجداری کارروائی ہونی چاہیے نااہلی نہیں،

آئین تو انگلش میں تھا کیا آئین سازوں کو صادق اور امین کا انگریزی معلوم نہیں تھی،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وکیل خرم رضا سمیت جو تاحیات نااہلی کی حمایت کر رہے وہ اپنے نکات بتا دیں، تین وکلا نے تاحیات نااہلی کی حمایت کی تھی،عثمان کریم صاحب اور اصغر سبزواری صاحب کیا آپ خرم رضا کے دلائل اپنا رہے،وکیل اصغر سبزواری نے کہا کہ تاحیات نااہلی اگر ڈکٹیٹر نے شامل کی تو اس کے بعد منتخب حکومتیں بھی آئیں، سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی "جج میڈ لاء” ہے ،جہانگیز ترین جیسے کیسز کی انکوائری ہونا چاہئے جہاں ٹرائل کے بغیر تاحیات نااہل کر دیا گیا،وکیل عثمان کریم روسٹرم پر آ گئے ،اور کہا کہ کوالیفیکیشن ہو یا ڈسکوالیفیکش، مقصد آرٹیکل 62 اور 63 کا ایک ہی ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ صادق اور امین کی کیا تعریف ہوگی، کوئی قتل کرکے آجائے، وکیل عثمان کریم نے کہا کہ نان مسلم بھی صادق اور امین لگایا گیا ہے، یہاں امین کا مطلب اسلام والا نہیں لیا جائے گا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین تو انگلش میں تھا کیا آئین سازوں کو صادق اور امین کا انگریزی معلوم نہیں تھی،جنرل ضیاء یا انکے وزیر کو امین کا مطلب نہیں معلوم تھا، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اسکا مطلب امین کا مطلب اسلامک ہی ہوگا، وکیل عثمان کریم نے کہا کہ اگر اسلامک مطلب دیکھیں گے تو پھر یہ نان مسلم پر نہیں لگے گا، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کون تعین کرے گا کس کا کردار اچھا کس کا نہیں،وکیل عثمان کریم نے کہا کہ حتمی طور پر تعین اللہ ہی کرسکتا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تاحیات نااہلی کا فیصلہ تحریر کرنے والے جج نے فیصل واڈا کیس کا فیصلہ بھی دیا،کیا دونوں فیصلوں کو ایک ساتھ دیکھا جا سکتا ہے؟ سمیع اللہ بلوچ فیصلے میں 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات کی تشریح کرنے والے جج نے فیصل واوڈا کیس میں تشریح کیسے بدل دی،وکیل عثمان کریم نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف صرف کاغذات نامزدگی کی حد تک ہے،

آمروں اورسیاست دانوں کوایک ساتھ نہیں پرکھا جاسکتا،آمرآئین توڑ کر حکومت میں آتا ہے منتخب ہوکرنہیں آتا،چیف جسٹس
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جب قانون آچکا ہے اورنااہلی پانچ سال کی ہوچکی توتاحیات والی بات کیسے قائم رہے گی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سیاست دان عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں،آمروں اورسیاست دانوں کوایک ساتھ نہیں پرکھا جاسکتا،آمرآئین توڑ کر حکومت میں آتا ہے منتخب ہوکرنہیں آتا،سیاست دانوں کوایسے برا نہ بولیں وہ عوامی رائے سےمنتخب ہوتے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آئین میں آرٹیکل 62 اور 63 الگ الگ لانے کی ضرورت کیا تھی؟ ایک آرٹیکل کہتا ہے کون کون اہل ہے دوسرا کہتا ہے کون نااہل،دونوں باتوں میں فرق کیا ہے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کوئی دوسری شہریت لیتا ہے تو وہ 62 میں نہیں 63 میں پھنسے گا، وکیل عثمان کریم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2013 کے اللہ دینو بھائیو کیس کے فیصلے میں 62 ون ایف کی نااہلی دی، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کر کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی متعارف کرائی، سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے 2020 میں اللہ دینو بھائیو نظر ثانی کیس میں نااہلی کالعدم قرار دے دی،جسٹس بندیال نے 2020 کے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کر کے فیصل واوڈا کیس کا فیصلہ دیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یعنی آپ کے مطابق جسٹس بندیال نے اس فیصلے کو بنیاد بنا کر اپنے ہی موقف کی نفی کی؟ وکیل عثمان کریم نے کہا کہ سپریم کورٹ کا 62 ون ایف کا سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ اس لیے چلے گا کیونکہ پانچ رکنی بنچ کا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اچھی تیاری کر کے آئے ہیں، اور بھی معاونت کریں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل عثمان کریم کی تعریف کی اور کہا کہ الیکشن سر پر ہیں ہم نے یہ مسئلہ حل کرنا ہے،

فوجداری یا سول کیس میں ایک گواہ جھوٹ بولتا ہے،کیا اس بنیاد پر تاحیات نااہلی ہو سکتی ہے؟ چیف جسٹس
تاحیات نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت وقفے کے بعد شروع ہو گئی،عدالتی معاون عزیر بھنڈاری روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ ریٹرنگ آفیسر کے سامنے دو مختلف فیصلے ہونگے،ایک فیصلہ تاحیات نااہلی کا دوسرا الیکشن ایکٹ کے تحت پانچ سال نااہلی کا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پارلیمنٹ نے نااہلی کی مدت پانچ سال کر دی ہے،کچھ وکلا کہہ چکے ہیں کہ نااہلی پانچ سال سے زیادہ نہیں ہوگی،کچھ وکلا نے کہا ہے کہ نااہلی کا فیصلہ تاحیات رہے گا،ہم اس نکتے کو دیکھ رہے ہیں کہ تاحیات نااہلی کا سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ واپس لیا جائے یا نہیں،عزیز بھنڈاری نے کہا کہ پارلیمنٹ اٹھارہویں ترمیم کرنے بیٹھی تو 62ون ایف کو نہیں چھیڑا تھا،پارلیمنٹ کو علم بھی تھا کہ 62 ون ایف کی ایک تشریح آچکی ہے، سمیع اللہ بلوچ کیس کے کچھ پہلو ضرور دوبارہ جائزے کے متقاضی ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اپنا پوائنٹ بتائیں، عزیر بھنڈاری نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس نااہلی کے مکینزم کی بات نہیں کر رہا،18ویں ترمیم کے بعد بھی کئی آئینی ترامیم ہوئیں،کسی بھی آئینی ترمیم میں آرٹیکل 62ون ایف کی بات نہیں ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک فارم میں تبدیلی پر پورا پاکستان بند کر دیا گیا تھا، شاید اس لئے اس معاملے کو چھوڑ دیا گیا ہو،ریاست نے سوچا ہو گا ان لوگوں سے کون ڈیل کرے گا،عزیر بھنڈاری نے کہا کہ یہ غالب جیسی بات ہے کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا، کاغذات نامزدگی ریٹرننگ افسر کے پاس جاتے ہیں جو نااہلی کا ڈیکلریشن نہیں دے سکتا،الیکشن ٹربیونل تسلیم شدہ حقائق کی بنیاد پر نااہلی کا ڈیکلریشن دے سکتا ہے، ڈیکلریشن کون دے سکتا ہے یہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں نہیں لکھا ہوا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کوئی عدالت کسی کے سچے اور راست گو ہونے کا ڈیکلریشن کیسے دے سکتی ہے؟ایمانداری ، امین اور فضول خرچ نہ ہونے کا تعین عدالتیں کیسے کر سکتی ہیں؟تاحیات نااہلی کیس میں تو سب کچھ سپریم کورٹ نے ہی کیا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں کہاں لکھا ہوا ہے سپریم کورٹ ایسا ڈیکلریشن دے سکتا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک فوجداری یا سول کیس میں ایک گواہ جھوٹ بولتا ہے،کیا اس بنیاد پر تاحیات نااہلی ہو سکتی ہے، عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آرٹیکل دس اے شفاف ٹرائل کی بات کرتا ہے، ریٹرننگ افسر ڈیکلریشن نہیں دے سکتا، ریٹرننگ افسر کورٹ آف لاء نہیں ہے، الیکشن ٹربیونل تسلیم شدہ حقائق کی بنیاد پر ڈیکلریشن دے سکتا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اپنے ہی دلائل کی نفی کر رہے ہیں، ایک جج کہے گا نااہلی ہوتی ہے دوسرا جج کہے گا نااہلی نہیں ہوتی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ ڈیکلریشن کہاں سے آئے گا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جعل سازی پر ڈیکلریشن کون دے گا، کچھ الفاظ ایسے ہیں جو محض کاغذ کے ٹکرے کے سوا کچھ نہیں،

ہم نے آر او کیلئے آسانی لانی ہے مشکل نہیں لانی، ہمیں صرف بتائیں سزا تاحیات ہوگی یا پانچ سال،چیف جسٹس
عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میں عدالتی معاون ہوں،کراس سوال نہ کریں، ججز مسکراتے رہے،عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اگر آپ کہیں تو میں اپنے سوالات واپس لے لیتا ہوں، تسلیم شدہ حقائق پر سپریم کورٹ بھی ڈیکلریشن دے سکتی ہے،سول کورٹ بھی ڈیکلریشن دے سکتی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے چیزوں کو آسان بنانا ہے مشکل بنانا نہیں، ہم نے آر او کیلئے آسانی لانی ہے مشکل نہیں لانی، ہمیں صرف بتائیں سزا تاحیات ہوگی یا پانچ سال،آپ نے تو ریٹرننگ افسر کو کورٹ آف لا بنا دیا، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ ایک شخص کوالیفائی کر کے رکن بن گیا اور بعد میں وہ خراب ہو گیا تو کیسے نکالیں گے؟ نااہل کرنے والے آرٹیکل 63 میں تو 62 ون ایف کا زکر نہیں،عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ایسی صورت میں تو وارنٹو کی رٹ لائی جائے گی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بھنڈاری صاحب میں بات نہیں سمجھ پا رہا، عزیز بھنڈاری نے کہا کہ میں پھر معذرت کر لیتا ہوں، ڈیکلیریشن کہاں سے آنا ہے اگر یہ سوال ہے ہی نہیں تو چھوڑ دیتے ہیں،جسٹس یحییٰ نے کہا کہ آپ اپنے دلائل اپنی ترتیب سے جاری رکھیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی نے کہا کہ ہم آپ کو سننا چاہتے ہیں مگر ہم نے کیس ختم بھی کرنا ہے، ہم نے اپنا آرڈر لکھنا بھی ہے،اس مقدمہ کو طول نہیں دے سکتے، انتخابات کا شیڈیل مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ بھی لکھنا ہے، عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ہائی کورٹ کو اختیار ہے کہ منتخب نمائندے کیخلاف ڈیکلریشن جاری کرے، بے ایمانی کا فیصلہ تو عدالت کسی بھی کیس میں دے سکتی ہے، آرٹیکل 62 ون ایف کیلئے سول کورٹ سے ڈیکلریشن لینا لازمی ہے،ہر عدالتی فیصلہ منتخب نمائندے کیخلاف ڈیکلریشن نہیں ہوسکتا،

جھوٹ بولنے والا تاحیات نااہل اور بغاوت کرنے والا پانچ سال نااہل کیسے ہوسکتا؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جھوٹ بولنے والا تاحیات نااہل اور بغاوت کرنے والا پانچ سال نااہل کیسے ہوسکتا؟اس نکتے کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا،پارلیمنٹ نے یہ ترامیم مرضی سے نہیں کیں، ان پر تھوپی گئی ہیں،عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کسی نے تھوپی نہیں ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پورے پاکستان کو یرغمال بنانے والے دوبارہ الیکشن لڑ رہے ہیں،آئین میں یہ سب چیزیں کہاں سے آئیں یہ کوئی نہیں بتا رہا، کوئی وکیل بھی ڈکٹیٹر کیخلاف بات نہیں کرتا، ڈکٹیٹر کہتا ہے یہ ترامیم کرو نہیں تو میں پچیس سال بیٹھا رہوں گا، آمر کو ہٹانے کیلئے پارلیمان اس کی بات مان لیتی ہے،عدالتی معاون عذیر بھنڈاری نے دلائل مکمل کر لیے ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت انتخابات کیلئے کسی کے حقوق متاثر نہیں کرنا چاہتی،سماعت میں وقفہ کرینگے تاکہ ہمارے خلاف کوئی ڈیکلریشن نہ آ جائے،

سپریم کورٹ کو تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لینا ہوگا،عدالتی معاون فیصل صدیقی
دوسرے وقفہ کے بعد سماعت ہوئی،عدالتی معاون فیصل صدیقی روسٹرم پر آگئے ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ سمیت دیگر وکلا سے درخواست ہے دلائل مختصر رکھیں،وقت کی کمی کیوجہ سے مختصر دلائل سنیں گے،فیصل صدیقی نے کہا کہ 50 فیصد دلائل کم کر دیئے مختصر دلائل دونگا،تاحیات نااہلی کے فیصلے کی موجودگی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم بے سود ہے، عدالتی فیصلے کا اثر کسی سادہ قانون سازی سے ختم نہیں کیا جا سکتا، تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لئے بغیر پانچ سال نااہلی کا قانون غیرآئینی ہوگا،سپریم کورٹ کو تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لینا ہوگا، سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی عدالتی ڈیکلریشن کی بنیاد پر دی تھی،لازمی نہیں کہ عدالتی ڈیکلریشن ہمیشہ کیلئے ہو، ڈیکلریشن ختم ہوتے ہی نااہلی کی معیار بھی ختم ہوسکتی ہے، سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ نااہلی کی مدت کا تعین کر رہا ہے،عدالت نے دیکھنا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم کرنے کی نیت سے کی گئی یا نہیں، اگر الیکشن ایکٹ کی ترمیم برقرار رکھنی ہے تو سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم ہونا ہو گا،نااہلی کی مدت، طریقہ کار اور پروسجر کا تعین ہونا ضروری تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ نے پہلے ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ ختم کر دیا تو عدالت کیوں اپنے فیصلے کو ختم کرے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹ سادہ قانون سازی سے سپریم کورٹ کی آئینی تشریح ختم نہیں کر سکتی، اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلے چلے گا یا الیکشن ایکٹ،پارلیمنٹ نے نااہلی کی مدت کم سے کم پانچ سال کرتے وقت الیکشن ایکٹ ترمیم کا اطلاق اٹھارویں ترمیم سے کیا، سمیع اللہ بلوچ کا ایسا فیصلہ دیا جس پر آئینی خلا تھا، سمیع اللہ بلوچ فیصلہ اس لیے آیا کہ آئینی خلا پر ہو سکے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین میں خلا کہ صورت میں یہی کیوں سمجھا جاتا ہے کہ اس کو پر کرنے کے لیے عدالتی تشریح ہی ہو گی؟ آئین جن چیزوں پر خاموش ہے اس کا مقصد قانون سازی کا راستہ کھلا رکھنا بھی ہو سکتا ہے نا کہ عدالتی تشریح، آئین میں تو قتل کی سزا بھی درج نہیں اس لیے تعزیرات پاکستان لایا گیا،

کسی کو تاحیات نااہل کرنا اسلام کے خلاف ہے،چیف جسٹس
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کہہ رہے الیکشن ایکٹ اور عدالتی فیصلے کی موجودگی میں تیسرا راستہ نکالا جائےوہ نظریہ بتائیں جو اس صورتحال سے باہر نکالے،کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ سپریم کورٹ یہ معاملہ پارلیمنٹ پر ہی چھوڑ دے؟پارلیمنٹ خود دیکھے جو ترمیم کرنی ہے کر لیں،ایکٹ آف پارلیمنٹ سے آئینی ترمیم کو ریگولیٹ نہیں کیا جاسکتا،وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ ختم نہ ہونے کی صورت میں آئینی تشریح کے معاملے میں مسائل ہوں گے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون ساز خلا اس لئے چھوڑتے ہیں کہ بعد میں اس پر قانون بن سکے، اس بنیاد پر الیکشن ایکٹ کا سیکشن 232 ختم نہیں کیا جاسکتا، کیا آئین قتل کی سزا کا تعین بھی کرتا ہے؟اگر قانون سازوں نے کوئی خلا چھوڑا ہے اسے کیسے پر کیا جائے گا؟وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر قانون ساز خلا پر نہیں کرتے تو عدالت بھی کرسکتی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر عدالت بھی تشریح کردے اور قانون سازی بھی ہو جائے کونسا عمل بالا ہوگا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ڈکلیریشن کی مدت پانچ سال تک رکھنا الگ بات ہے،قانونی ترمیم سے شاید وہ اس سے تھوڑا آگے چلے گئے،نااہلی کی مدت کو پانچ سال تک کرنا ایک آئینی چیز کو کنٹرول کرنے جیسا ہے، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سارے معاملے کا حل اسلام میں موجود ہے،قرآن پاک میں بتایا گیا ہے کہ انسان کا رتبہ بہت بلند ہے،انسان برا نہیں اس کے اعمال برے ہوتے ہیں،کسی کو تاحیات نااہل کرنا اسلام کے خلاف ہے،62 ون ایف انسان کو برا کہہ رہا ہے،اگر کوئی شخص گناہ سے توبہ کر لے تو معافی مل سکتی ہے

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شکر ہے آرٹیکل 62 ون ایف کی اہلیت کا معیار ججز کےلئے نہیں، میں تو ڈر گیا ہوں شکر ہے پارلیمان نے یہ معیار ہمارے لئے مقرر نہیں کیا، اگر ججز کےلئے ایسا معیار ہوتا تو کوئی بھی جج نہ بن سکتا،

سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی، سپریم کورٹ نے کہا کہ کل صبح نو بجے تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کریں گے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی حمایت کردی،سپریم کورٹ بار نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں نااہلی صرف پانچ سال کی ہو جو الیکشن قانون بن گیا وہ درست ہے،

تاحیات نااہلی کے معاملے کی سماعت کیلئے سات رکنی لارجر بینچ تشکیل

نااہلی کی درخواست پر فیصل واوڈا نے ایسا جواب جمع کروایا کہ درخواست دہندہ پریشان ہو گیا

الیکشن کمیشن کے نااہلی کے اختیارات،فیصل واوڈا نے تحریری معروضات جمع کروا دیں

Leave a reply