تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے موجودہ عالمی دنیا کو دیکھا جائے تو مسلم ممالک ہوں یا غیر مسلم بنیادی طور پر اپنی بقاء، طاقت اور معاشی مفادات کے لیے پالیسیاں بناتے ہیں۔اسلام بطور دین ہمیں حق اور انصاف، مظلوم کی حمایت اور باہمی اتحاد کا درس دیتا ہے۔ لیکن مسلم ممالک کی حکومتیں ہمیشہ ان اصولوں پر نہیں چلتیں ان کی سیاست اکثر بین الاقوامی تعلقات، طاقت کے توازن معیشت اور اپنی کرسی بچانے پر مبنی ہوتی ہے۔ اس لیے جب اسلامی جنگ یا اسلامی اتحاد کی بات کی جاتی ہے تو عملی طور پر وہ زیادہ نعرہ ہی رہتا ہے تاریخ میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ عرب اسرائیل جنگوں میں بھی عرب ممالک متحد ہو کر نہیں لڑ سکے کشمیر یا فلسطین جیسے مسائل پر بھی مسلم دنیا کا موقف تو ہے لیکن عملی اتحاد اور حقیقی قربانی کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ کئی بار مسلم ممالک آپس میں ہی جنگوں میں الجھے ہیں جس کی مثالیں موجود ہیں۔

آج کی جنگیں مفادات کی جنگیں ہیں مسلم ممالک کی عوام میں درد، محبت اور دینی غیرت اب بھی زندہ ہے لیکن حکومتوں کی سطح پر زیادہ تر فیصلے سیاسی و معاشی مصلحتوں کے تابع ہیں۔ زیادہ تر مسلم ممالک میں حکمران اپنی کرسی اور اقتدار بچانے کو اولین ترجیح دیتے ہیں قومی مفادات کو اسلامی اتحاد پر فوقیت دیتے ہیں۔ بہت سے ممالک عالمی طاقتوں مثلاً امریکہ، روس، چین وغیرہ پر انحصار کرتے ہیں جس کی وجہ سے آزاد فیصلے نہیں کر پاتے۔ شیعہ، سنی صوفی، وہابی وغیرہ تقسیمیں اکثر سیاسی رنگ اختیار کر لیتی ہیں۔ بڑے ممالک جیسے ایران اور سعودیہ عرب اپنے اپنے بلاکس بنانے میں لگے رہتے ہیں جس کا نتیجہ دشمنی اسلامی بھائی چارے پر غالب آ جاتی ہے۔ ترکی، ایران، عرب ممالک اور برصغیر کے اپنے اپنے قومی ایجنڈے ہیں ہر ملک اپنی زبان نسل اور جغرافیے کو ترجیح دیتا ہے جس کی وجہ سے (اُمتِ واحدہ) کا تصور عملی طور پر پیچھے رہ جاتا ہے۔ مسلم دنیا میں بے شمار وسائل ہیں تیل، گیس، مدنیات، افرادی قوت مگر ان کا استعمال بکھرا ہوا ہے۔ امیر مسلم ممالک غریب مسلم ممالک کی سنجیدگی سے مدد نہیں کرتے مسلم دنیا میں سوچنے اور سوال کرنے کی روایت کمزور ہو چکی ہے۔ زیادہ تر زور جذباتی نعروں پر ہے عملی منصوبہ بندی اور سائنسی ترقی پر نہیں۔ نتیجہ یہ کہ عالمی سطح پر فیصلے ہو رہے ہوتے ہیں تو ان کی آواز کمزور پڑ جاتی ہے۔ اکثر مسلم ممالک ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اسلامی اتحاد اسلامی ممالک کی عوام کی خواہش تو ہے لیکن حکمرانوں کا ایجنڈا نہیں۔ جب تک قیادتیں اپنے ذاتی مفادات کو اُمت کے مفاد پر قربان نہیں کریں گی اتحاد محض تقریروں اور قراردادوں تک محدود رہے گا۔

Shares: