معروف ناول نگار محقق اور ادیب طارق اسماعیل ساگر صاحب کورونا وائرس کے باعث انتقال کر گئے-
کالم نگار معروف ادیب، ناول نگار، محقق اور کالم نگار متعدد قومی اخبارات سے منسلک رہے ہیں۔ آپ کئی درجن کتابوں اور ناولوں کے مصنف ہیں ساگر صاحب نے اپنے زندگی کا سار عرصہ قلمی جہاد کرتے ہوئے گزارا۔ کچھ عرصہ پہلے اُنھوں نے اپنی ایک سرگزشت وہ مجھے کھا گئے کے نام سے لکھی یقینی طو ر پر ایک صاف سچے کھرئے انسان کو معاشرئے میں اپنا کام کرنے کے لیے بہت سے مسائل کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ ساگر صاحب کے ساتھ بھی ہواکہ وہ لوگ جو صحافت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں ساگر صاحب کی سرگزشت پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کا اصل چہرہ کیا ہے۔
ساگر صاحب کی کتابیں نوجوان نسل میں اتنی مقبول ہیں کہ اپنی مثال آپ ہیں۔پاک فوج کے ساتھ ساگر صاحب کی محبت پاکستان سے محبت ہے کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ پاک فوج کی قربانیوں کا ذکر ساگر صاحب کے ناولوں اور کالموں میں بجا طور پر ملتا ہے۔ انتہائی نیک انسان ہیں اﷲ پاک سے ڈرنے والے تھے اور روایتی صحافت سے بہت دور تھے-
مادر وطن کے لیے اپنے زندگی کو ہر طرح کی مشکلات میں ڈالے رکھا۔ ساگر صاحب یوسف زئی پٹھان ہیں یوں ساگر صاحب نے پاک وطن کی حرمت کے لیے واقعی ہمیشہ ایک بہادر سپاہی کا کردار ادا کیا ہے مرحوم نے کٸی گمنام آفسران پر کتابیں بھی لکھیں ان کو سکھ مذہب پر مکمل عبور حاصل تھا-
ساگر صاحب نے بے شمار کتابیں لکھیں ہیں میں ایک جاسوس تھا۔ کمانڈو،وطن کی مٹی گواہ رہنا، وادی لہو رنگ، را، بے شمار ناول، کتابیں ہیں جو کہ ہمارئے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں بھارت میں گمنامی کی زندگی گزارنے کے دوران گرفتار ہوگۓ تھے اور پہر کامیابی سے بھارتی قید سے فرار بھی ہوئے تھے
ہماری حکومت کو چاہیے کہ جناب ساگر صاحب جیسی شخصیت کے مقام کو سراہے اور اُن کی لازوال خدمات پر اُنھیں صدارتی تمغہ دے۔ کیونکہ ساگر صاحب کھرے انسان ہیں ِاس لیے اُن سے چاپلوسی نہیں ہوتی ساگر صاحب کی کتابوں سے اقتباسات کو ہمارئے تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ ساگر صاحب کی خدمات کو بطور سٹریٹجک اِنالسٹ لینا چاہیے۔
انکی نماز جنازہ عصر کے بعد ان کی رہائش گاہ 189 سی، اقبال ایونیو فیز 3 کینال روڈ نزد شاہ کام چوک بحریہ ٹاؤن لاہور میں ادا کی جائے گی ۔