ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ اسماعیل قاآنی کے حوالے سے ایرانی میڈیا نے تصدیق کی ہے کہ وہ خیریت سے ہیں اور عنقریب ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے انہیں "نشانِ فتح” سے نوازا جائے گا۔ یہ بات ایران کی نیم سرکاری خبررساں ایجنسی تسنیم نے پاسداران انقلاب کے سینئر مشیر ابراہیم جباری کے حوالے سے بتائی ہے۔تسنیم نیوز کے مطابق، اسماعیل قاآنی کو حالیہ دنوں میں اسرائیلی فضائی حملوں میں زخمی ہونے یا ہلاک ہونے کے حوالے سے افواہوں کے باوجود، وہ بحفاظت اور روبہ صحت ہیں۔ ان کے بارے میں یہ افواہیں اس وقت گردش کرنے لگیں جب 27 ستمبر کو بیروت میں اسرائیلی فضائی حملے کے دوران حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی مبینہ شہادت کی خبریں سامنے آئیں۔ اس حملے کے بعد اسماعیل قاآنی لبنان کا دورہ کر رہے تھے، اور اس کے بعد سے ان کے بارے میں معلومات محدود ہو گئی تھیں۔
اس سے قبل غیر ملکی خبررساں ایجنسی رائٹرز نے دعویٰ کیا تھا کہ بیروت میں حملے کے دوران اسماعیل قاآنی بھی موجود تھے، جس سے قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ وہ بھی حملے کی زد میں آ سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، بیروت کے جنوبی علاقے ضاحیہ میں حزب اللہ کے ممکنہ نئے سربراہ ہاشم صفی الدین کو نشانہ بنانے کے لیے اسرائیلی حملے کیے جا رہے تھے، اور اسی دوران اسماعیل قاآنی بھی اس علاقے میں موجود تھے۔ تاہم، عہدیداروں کے مطابق، اس وقت اسماعیل قاآنی ہاشم صفی الدین سے کسی ملاقات میں مصروف نہیں تھے۔ان افواہوں کے بعد قدس فورس کے ڈپٹی کمانڈر ارج مسجدی نے پیر کے روز اس بات کی تردید کی کہ اسماعیل قاآنی اسرائیلی حملے کی زد میں آئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ قاآنی بالکل محفوظ ہیں اور ان کے زخمی یا ہلاک ہونے کی اطلاعات بے بنیاد ہیں۔
ابراہیم جباری کے تازہ بیان کے مطابق، اسماعیل قاآنی کی صحت ٹھیک ہے اور انہیں مستقبل قریب میں ایران کی قیادت کی جانب سے "نشانِ فتح” کے ساتھ اعزاز دیا جائے گا، جو ایران میں ایک اعلیٰ فوجی تمغہ سمجھا جاتا ہے۔یہ واضح رہے کہ اسماعیل قاآنی قدس فورس کی قیادت سنبھالنے کے بعد سے مشرق وسطیٰ کے متعدد محاذوں پر ایران کے مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم رہے ہیں، خاص طور پر لبنان، شام اور عراق میں حزب اللہ اور دیگر شیعہ ملیشیا گروپوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اس صورت حال میں یہ بیان کہ انہیں "نشانِ فتح” سے نوازا جائے گا، ان کے اہم کردار اور خدمات کو سراہنے کا اظہار ہے۔

Shares: