دوحہ میں جاری 60 روزہ جنگ بندی مذاکرات میں نمایاں پیشرفت سامنے آئی ہے، اور ایک یا دو ہفتوں کے اندر اسرائیل اور حماس کے درمیان جامع معاہدے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ بات چیت پیچیدہ اور مشکل نوعیت کی ہے، تاہم دونوں فریقین نے لچک کا مظاہرہ کیا ہے، جو مثبت پیش رفت کی علامت ہے۔اسرائیلی عہدیدار کے مطابق مذاکرات کا سب سے بڑا چیلنج ایک محفوظ اور مستحکم جنگ بندی کا قیام ہے تاکہ دونوں جانب انسانی جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکے۔مذاکرات میں انسانی امداد کی فراہمی، قیدیوں کی رہائی، سرحدی پابندیوں میں نرمی اور سیاسی امور بھی زیر غور ہیں۔

ذرائع کے مطابق اسرائیل غزہ میں جنگ بندی کے بدلے تعمیر نو کی شرائط پر قطر کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ اسرائیلی وفد کو قطر بھیجنے کا اعلان کیا گیا ہے، تاہم حماس کی شرائط پر اعتراضات بھی موجود ہیں۔حماس کے نمائندوں نے مذاکرات کو تعمیری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امن اور پائیدار جنگ بندی کے لیے سنجیدہ ہیں اور عام شہریوں کی زندگیوں میں بہتری چاہتے ہیں۔

دوحہ میں ثالثی کرنے والے ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں مذاکرات کی حمایت کر رہی ہیں، اور امید کی جا رہی ہے کہ جلد ایک ایسا معاہدہ طے پا جائے گا جو خطے میں دیرپا امن کا باعث بنے گا۔ماضی میں کئی جنگ بندی معاہدے ناکام ہو چکے ہیں، تاہم اس بار فریقین کے رویے میں تبدیلی اور ثالثوں کی مؤثر مداخلت مذاکرات کو کامیابی کی جانب لے جا رہی ہے۔

پاکستان ریلوے کی خوشخبری، جدید بزنس ٹرین کا اعلان

طورخم بارڈر، انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹس سمیت 6 افراد گرفتار

فرانس کا برطانیہ سے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا مطالبہ

Shares: