اسٹینڈرڈ اینڈ پوورز (S&P) نے اسرائیل کی طویل مدتی کریڈٹ ریٹنگ کو اے پلس سے کم کر کے اے کر دیا ہے، جس کے ساتھ ساتھ ملک کے لیے فیوچر آؤٹ لک کو بھی تبدیل کر کے منفی کر دیا گیا ہے۔ اس کمی کا براہ راست تعلق اسرائیل کی حالیہ علاقائی سیکیورٹی مسائل اور حزب اللہ کے ساتھ جاری تنازع سے جوڑا جا رہا ہے، جو نہ صرف اسرائیل کی معیشت پر دباؤ ڈال رہے ہیں بلکہ اس کے مستقبل کے اقتصادی امکانات پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ایس اینڈ پی کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کو نہ صرف حزب اللہ کے ساتھ تنازع کا سامنا ہے بلکہ ایران کے ساتھ براہ راست جنگ کے خطرات بھی سر پر منڈلا رہے ہیں۔ یہ صورتحال خطے میں عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے اور اس کے ساتھ اسرائیل کی معیشت پر شدید دباؤ ڈال رہی ہے۔ اسرائیل نے حالیہ مہینوں میں حماس اور حزب اللہ کے خلاف بڑے پیمانے پر فضائی اور زمینی کارروائیاں کی ہیں، جس کے دوران غزہ اور جنوبی لبنان میں مخالفین کے بنیادی ڈھانچے کو کمزور کرنے کے لیے بھاری اخراجات کیے گئے ہیں۔اسرائیل کو اس تنازع کے دوران نہ صرف اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کرنا پڑا ہے بلکہ داخلی طور پر بھی سیکیورٹی کو برقرار رکھنے کے لیے مزید وسائل مختص کرنے پڑے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ملکی معیشت پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے، جو پہلے ہی عالمی اقتصادی سست روی کے سبب متاثر ہو رہی تھی۔
ایران کے ساتھ براہ راست جنگ کے خدشات نے اسرائیلی معیشت کے مستقبل پر مزید سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ایس اینڈ پی کی رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کسی بڑے تنازع میں بدلتی ہے تو اسرائیل کی معیشت کو غیر معمولی منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں سرمایہ کاری کا رخ بدل سکتا ہے، ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار محتاط ہو جائیں گے اور ملک میں جاری منصوبے یا تو تعطل کا شکار ہو سکتے ہیں یا پھر بند ہو سکتے ہیں۔حزب اللہ اور حماس کے خلاف کارروائیوں کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ تنازع کے خطرے نے اسرائیل میں مہنگائی اور اشیاء کی قلت جیسے مسائل کو جنم دیا ہے۔ ملک میں کئی اشیاء کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں اور ان کی فراہمی میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔ بڑے پیمانے پر دفاعی اخراجات اور سیکیورٹی کی ضروریات کے باعث بنیادی انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے مختص کیے جانے والے وسائل محدود ہو گئے ہیں۔ان حالات میں بے روزگاری کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بہت سے کاروبار ان تنازعات کے باعث اپنا کام درست طریقے سے جاری نہیں رکھ پا رہے، جس کا اثر اسرائیلی عوام پر بھی پڑا ہے۔ خوف و ہراس کے سبب عمومی معاشی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں، جو مجموعی معیشت پر دباؤ ڈال رہی ہیں۔
دنیا بھر کے میڈیا آؤٹ لیٹس اور ماہرین اسرائیل کی موجودہ صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ عالمی میڈیا نے اسرائیل کی حزب اللہ اور حماس کے ساتھ جاری کشیدگی اور ایران کو سبق سکھانے کی کوششوں کے نتیجے میں سامنے آنے والے اخراجات پر بھی تجزیے پیش کیے ہیں۔ ان تجزیات میں اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کا معاشی قیمت پر منفی اثرات مرتب ہونا فطری امر ہے۔ اسرائیلی معیشت کو گزشتہ ایک سال کے دوران مسلسل غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے، جس نے نہ صرف داخلی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی اسرائیل کے سرمایہ کاروں کو محتاط کر دیا ہے۔اسرائیل کے مالیاتی ادارے اور معاشی ماہرین مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ اگر خطے میں کشیدگی کم نہیں ہوتی اور داخلی معاملات میں بہتری نہیں آتی تو اسرائیل کی معیشت کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسرائیلی حکام کو نہ صرف موجودہ تنازعات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ انہیں اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا کہ کس طرح معیشت کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے۔
ایس اینڈ پی کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کے بعد اسرائیل کو اپنی اقتصادی پالیسیاں بہتر کرنے کی ضرورت ہوگی۔ حکومت کو دفاعی اخراجات اور سیکیورٹی سے متعلق معاملات میں توازن پیدا کرنا ہوگا تاکہ معیشت کو مزید نقصان سے بچایا جا سکے۔ عالمی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنا اسرائیلی معیشت کی بحالی میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے، اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب خطے میں سیکیورٹی صورتحال بہتر ہو اور اندرونی سیاسی و معاشی استحکام حاصل کیا جائے۔اسرائیل کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی اور معیشت کے فیوچر آؤٹ لک کو منفی کرنے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ حالیہ تنازعات اور خطے میں بڑھتے ہوئے سیکیورٹی خطرات اسرائیلی معیشت پر گہرے اثرات ڈال رہے ہیں۔ اسرائیل کو ان مسائل سے نمٹنے کے لیے نہ صرف اندرونی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنا ہوگا، تاکہ وہ مستقبل میں اقتصادی مشکلات سے بچ سکے۔








