ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ اگرچہ ختم ہو چکی ہے، لیکن اس کے تباہ کن اثرات اب سامنے آ رہے ہیں۔ دونوں ممالک اپنی اپنی فتح کے دعوے کر رہے ہیں، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہے ہیں۔ اسرائیلی میڈیا میں شائع ہونے والے اعداد و شمار نے اس جنگ کی شدت اور تباہ کاری کو بے نقاب کر دیا ہے۔
اسرائیلی ٹیکس اتھارٹی کے معاوضہ محکمہ کو اب تک مجموعی طور پر 38,700 سے زائد درخواستیں موصول ہوئی ہیں، جن میں متاثرہ افراد نے میزائل حملوں سے ہونے والے نقصانات پر معاوضے کی اپیل کی ہے۔ ان میں سے 30,809 درخواستیں صرف رہائشی مکانات کو پہنچنے والے نقصان سے متعلق ہیں۔تقریباً 3,700 دعوے گاڑیوں کے نقصان پر مشتمل ہیں۔جب کہ 4,000 درخواستیں مشینری، دکانوں اور دیگر اثاثوں کی تباہی سے متعلق ہیں۔اسرائیل کی معروف ویب سائٹ باہادرئی ہریڈیم کے مطابق سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ تل ابیب ہے، جہاں سے 25,000 سے زائد افراد نے مالی معاوضے کے لیے درخواست دی ہے۔ دوسرے نمبر پر جنوبی اسرائیلی شہر اشکلون ہے، جہاں سے 10,800 دعوے سامنے آئے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل نقصان اس سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے کیونکہ کئی علاقوں سے اب تک درخواستیں موصول نہیں ہوئیں۔ ایسی عمارتیں اور املاک بھی ہیں جنہیں نقصان تو پہنچا ہے لیکن ان کے مالکان نے تاحال کوئی دعویٰ دائر نہیں کیا۔ اسرائیلی حکومت کی جانب سے اب تک اس جنگ میں ہونے والے مجموعی مالی نقصان پر کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم جس تیزی سے دعووں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس جنگ کا معاشی بوجھ اسرائیل کی معیشت پر بھاری پڑے گا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف مکانات کی مرمت و تعمیر ہی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتی ہے، جب کہ گاڑیوں، کاروباری مشینری اور دیگر نجی املاک کی بحالی پر بھی اربوں ڈالر خرچ ہونے کا امکان ہے۔