غزہ میں 15 ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ طے پایا ہے، جس کے بعد دونوں طرف کی میڈیا رپورٹس نے مختلف پہلوؤں پر تبصرہ کیا ہے۔
اسرائیلی میڈیا میں اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے حماس کی 20 بٹالینز کو مکمل طور پر ختم کرنے کا دعویٰ کیا، لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ بٹالینز کس حد تک تباہ ہوئیں۔ دوسری جانب فلسطینی اور حماس کے میڈیا نے جنگ بندی کو حماس کی فتح کے طور پر پیش کیا ہے اور غزہ میں حماس کے کنٹرول کے قیام کی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں۔حماس کے عسکری ونگ "القسام بریگیڈ” کے ترجمان ابو عبیدہ نے جنگ بندی معاہدے پر اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس اس معاہدے کا احترام کرنے کے لیے پُرعزم ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کی کامیابی کا انحصار اسرائیل کے عمل پر ہے۔ ابو عبیدہ نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ بھی معاہدے کا احترام کرے، کیونکہ اسرائیل کی طرف سے کسی بھی قسم کی خلاف ورزی پورے معاہدے کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ غزہ پر اسرائیلی قبضہ تمام برائیوں کی جڑ ہے اور حماس اس قبضے کو ختم کرنے کے لیے اپنی تمام تر طاقت کے ساتھ مزاحمت جاری رکھے گی۔ ان کے مطابق، غزہ پر اسرائیل کا قبضہ ہی فلسطینی عوام کی مشکلات کی وجہ ہے، اور حماس اس قبضے کے خاتمے کے لیے مسلسل جدوجہد کرے گی۔
قیدیوں کا تبادلہ: حماس اور اسرائیل کے اقدامات
جنگ بندی کے تحت دونوں فریقوں نے قیدیوں کا تبادلہ کیا۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، حماس نے 3 اسرائیلی خواتین قیدیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کیا، جنہیں اسرائیلی فوج کے خصوصی یونٹ تک پہنچایا گیا اور پھر اسرائیلی فوجی اسپتال میں منتقل کیا گیا۔ اس کے بعد اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے کے تحت اپنے جیلوں سے 90 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا، جن میں 69 خواتین اور 21 بچے شامل تھے۔یہ قیدی اسرائیلی جیلوں میں طویل عرصے سے قید تھے، اور ان کی رہائی کے بعد مغربی کنارے میں ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کا قافلہ دو بسوں میں مغربی کنارے کے شہر بیتونیہ پہنچا، جہاں ان کا فلسطینی عوام کی جانب سے استقبال کیا گیا۔ ایک فلسطینی طالبہ نے جو ان قیدیوں میں شامل تھی، بتایا کہ اسرائیلی حراست کے دوران انہیں خوراک اور پانی کی کمی کا سامنا تھا، اور حالات انتہائی خوفناک تھے۔حماس نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ قیدیوں کا اگلا تبادلہ 25 جنوری کو ہوگا، جس میں غزہ سے 4 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کی جائے گی۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق، اس تبادلے میں حماس سے رہائی پانے والے 4 اسرائیلی یرغمالی ہوں گے۔
جنگ بندی کے بعد اسرائیلی میڈیا نے غزہ کی صورتحال پر اپنی رپورٹس میں کہا ہے کہ حماس کے کارکن سڑکوں پر دوبارہ سرگرم نظر آ رہے ہیں، اور یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ حماس نے غزہ میں اپنا کنٹرول دوبارہ قائم کر لیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ حماس کی پولیس دوبارہ منظم ہو رہی ہے اور غزہ کا انتظام سنبھال رہی ہے۔ غزہ میں امن و امان کی بحالی میں حماس کی پولیس آگے نظر آ رہی ہے۔اسرائیلی میڈیا نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ حماس نے غزہ میں سرنگوں سے نکل کر اپنی موجودگی کو دوبارہ ظاہر کیا ہے، اور اس کی مزاحمتی فورسز ٹرکوں میں گشت کرتی نظر آ رہی ہیں۔ اسرائیلی اخبار نے کہا کہ فلسطینی میڈیا جنگ بندی کو حماس کی فتح کے طور پر پیش کر رہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حماس نے غزہ پر اپنے کنٹرول کو برقرار رکھنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔اسرائیل نے اپنی جنگی حکمت عملی میں دعویٰ کیا کہ اس نے حماس کی 20 بٹالینز کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔ تاہم اسرائیلی میڈیا نے واضح کیا کہ یہ بٹالینز تباہ نہیں ہوئیں بلکہ ان کے آپریشنل اثرات کو کم کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود، حماس نے غزہ میں اپنی حکمت عملی کو برقرار رکھا ہے اور جنگ بندی کے دوران بھی غزہ کے انتظام میں اہم کردار ادا کیا ہے۔حماس کی مزاحمتی فورسز اب بھی غزہ کے مختلف علاقوں میں گشت کرتی نظر آ رہی ہیں اور اس کا عزم ظاہر کر رہی ہیں کہ وہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں گے۔
غزہ پر اسرائیل کی جارحیت گزشتہ 15 ماہ سے جاری تھی جس میں ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے۔ فلسطینی محکمہ صحت کے مطابق، اسرائیل کی کارروائیوں میں 47,899 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بچے اور خواتین شامل ہیں۔ ایک لاکھ 10 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے ہیں اور ہزاروں افراد لاپتا ہیں۔ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی اور شہری انفراسٹرکچر بھی شدید متاثر ہوا۔ جنگ بندی معاہدہ اس طویل اور تباہ کن جنگ کا خاتمہ کرنے کی کوشش ہے، لیکن اس کی کامیابی کا دارومدار دونوں طرف کی سیاسی اور عسکری حکمت عملیوں پر ہے۔
غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ ایک اہم موڑ ہے، لیکن اس کے بعد کی صورتحال پیچیدہ اور غیر یقینی نظر آ رہی ہے۔ حماس نے اپنی مزاحمت اور غزہ پر کنٹرول کو دوبارہ مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے، جبکہ اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے حماس کی عسکری طاقت کو کمزور کیا ہے۔ دونوں فریقوں کی جانب سے اپنے موقف اور اقدامات کا سلسلہ جاری ہے، اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا یہ جنگ بندی معاہدہ پائیدار امن کا باعث بنے گا یا نہیں۔








