ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ 12 روزہ جنگ بندی کے بعد بھارتی دفاعی تجزیہ کار پرواین سواہنے نے ایک اہم تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کی فوجی برتری کا تاثر شدید زک اٹھا چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جیسے بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف طاقت کے استعمال کی حکمتِ عملی پر سوالات اٹھتے رہے، ویسے ہی اب اسرائیل کے لیے بھی اپنی عسکری بالادستی کے دعوے کو برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
پرواین سواہنے نے اسرائیلی آرمی چیف ایال زمیر کے اس بیان پر ردعمل دیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایران کے خلاف جاری مہم کا ایک "اہم باب” مکمل ہو چکا ہے، لیکن یہ مہم ختم نہیں ہوئی۔ سواہنے کے مطابق یہ بیان اسرائیل کی عسکری ناکامی کو ایک "ادھورے مشن” کا نام دے کر چھپانے کی کوشش ہے۔انہوں نے ایران اسرائیل جنگ کا موازنہ جنوبی ایشیائی تناظر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان فوجی کشیدگی سے کرتے ہوئے کہا”جیسے بھارت نے پاکستان کے ساتھ حالیہ تنازع کے بعد ‘آپریشن سندور’ کے اگلے مرحلے کا اعلان کیا تھا، ویسے ہی اب اسرائیل بھی جنگ بندی کے باوجود آئندہ مرحلے کی بات کر رہا ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ ظاہر کرتا ہے کہ فریقین اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے اور اب اگلے مرحلے کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔”
پرواین سواہنے نے کہا کہ اسرائیل کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایران جیسے ملک نے براہ راست فوجی ردعمل دے کر نہ صرف اسرائیل کے حساس علاقوں کو نشانہ بنایا بلکہ اس کے دفاعی نظام کی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوجی قیادت اب ایک نئے بیانیے کی تیاری میں مصروف ہے تاکہ داخلی سطح پر اپنی عوام کو اعتماد میں لیا جا سکے، اور بین الاقوامی سطح پر یہ پیغام دیا جا سکے کہ وہ اب بھی مشرق وسطیٰ میں فیصلہ کن طاقت ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان رواں ماہ شدید جھڑپیں ہوئیں، جن میں میزائل حملے، ڈرون حملے اور دیگر عسکری اقدامات شامل تھے۔ امریکہ کے آپریشن "مڈنائٹ ہیمر” کے ذریعے ایران کے جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد خطے میں کشیدگی عروج پر پہنچی، جس کے بعد حالیہ جنگ بندی عمل میں آئی۔ تاہم اس دوران ایران نے بھی تل ابیب سمیت کئی اسرائیلی شہروں کو نشانہ بنایا، جس سے اسرائیل کی دفاعی برتری پر سوالات اٹھے۔تجزیہ کاروں کے مطابق اس جنگ نے مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو بدل کر رکھ دیا ہے، اور اسرائیل کو اب پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر دفاعی دباو کا سامنا ہوا ہے۔