تہران: معروف امریکی اخبار "وال اسٹریٹ جرنل” نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ حالیہ اسرائیلی فضائی حملے میں ایران کا روس سے فراہم کردہ S-300 میزائل ڈیفینس سسٹم مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔ یہ سسٹم روس کے جدید ترین S-400 کی پچھلی نسل کا نمائندہ تھا، اور اس کی تباہی ایران کی دفاعی صلاحیتوں پر گہرے اثرات ڈال سکتی ہے۔رپورٹ کے مطابق، ایک اسرائیلی عہدیدار نے بتایا کہ ایران کے پاس موجود تمام میزائل ڈیفینس سسٹم، بشمول S-300، اب ناکارہ ہو چکے ہیں۔ اس کی بنیاد پر، یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ایران کی فضائی دفاعی صلاحیتوں میں بڑی کمی واقع ہوئی ہے، جس سے اس کے فوجی نظام کی حفاظت کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔
ایران نے اسرائیلی حملے کے نتائج کو بیان کرنے میں غیر معمولی احتیاط سے کام لیا ہے۔ حکام نے زیادہ تر معاملات پر خاموشی اختیار کی ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے کی حساسیت کو سمجھتے ہیں۔ ایرانی فوج کے سربراہ نے صرف یہ کہا ہے کہ اسرائیلی طیاروں نے دو صحرائی علاقوں میں راڈارز کو نشانہ بنایا اور کچھ شہری علاقوں میں بھی کامیابی حاصل کی۔
"وال اسٹریٹ جرنل” کی رپورٹ میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اسرائیلی فضائیہ نے ایران کی میزائل بنانے والی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا ہے، جس کی بحالی میں ایران کو کئی سال لگ سکتے ہیں۔ اس سے ایران کی میزائل کی پیداوار کی صلاحیت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے، جو کہ اس کی فوجی حکمت عملی کے لیے اہم ہے۔رپورٹ کے مطابق، امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل سے کہا تھا کہ وہ ایران کی ایٹمی اور تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنانے سے گریز کرے۔ اسرائیلی قیادت نے اس ہدایت کی پاسداری کرتے ہوئے ایٹمی اور تیل کی تنصیبات کو واضح طور پر نشانہ بنانے سے گریز کیا ہے، جو کہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ علاقائی سلامتی کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان رابطے جاری ہیں۔اس سلسلے میں ایران کی جانب سے روس کے فراہم کردہ میزائل ڈیفینس سسٹم کی تباہی کے حوالے سے باضابطہ ردعمل ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔ ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے اس حملے کے جواب میں کہا تھا کہ ایران اسرائیلی حملے کا "منہ توڑ جواب” دے گا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اپنی فوجی حکمت عملی میں سختی لانے کے لیے تیار ہے۔یہ تمام واقعات خطے میں جغرافیائی سیاسی صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں، اور ایران کی دفاعی حکمت عملی اور جوابی کارروائیوں کا اندازہ لگانا ایک چیلنج بن چکا ہے۔

Shares: