سی این این کی ہیرہ ہمایوں اور اورین لبرمین کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ مل کر مزید یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک نئے معاہدے پر کام کر رہے ہیں۔
نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس میں ایک بیان میں کہا، "یرغمالی کرب میں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم ان سب کو باہر نکال سکیں۔ اسٹیو وٹکوف صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بہت قابل نمائندے ہیں۔ انہوں نے ہمیں ایک معاہدہ حاصل کرنے میں مدد کی جس کے تحت 25 یرغمالی رہا ہوئے تھے۔ ہم اب ایک اور معاہدے پر کام کر رہے ہیں جس کی ہمیں امید ہے کہ یہ کامیاب ہوگا۔”انہوں نے مزید کہا کہ وہ یرغمالیوں کے اہلِ خانہ سے "روزانہ” بات کرتے ہیں۔
نیتن یاہو کو مسلسل تنقید کا سامنا رہا ہے کہ وہ یرغمالیوں کے اہلِ خانہ سے باقاعدہ رابطہ نہیں کرتے، خاص طور پر اُن یرغمالیوں کے بارے میں جنہیں پچھلے جنگ بندی معاہدوں کے دوران رہا کیا گیا تھا۔ کئی سابق یرغمالی اور ان کے اہلِ خانہ نے اس کے بجائے صدر ٹرمپ سے رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کو عمل میں لائیں۔ پچھلے مہینے آٹھ سابق یرغمالی وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے ملے اور ان سے کہا کہ وہ باقی یرغمالیوں کو اسرائیل واپس لائیں۔
نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل "غزہ کے عوام کو یہ اختیار دینے کے لیے پرعزم ہے کہ وہ آزادانہ طور پر انتخاب کر سکیں کہ وہ کہاں جانا چاہتے ہیں۔” انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ صدر ٹرمپ نے ایک "جرات مندانہ وژن” پیش کیا تھا جس پر پیر کو بات کی گئی تھی، اور جس میں فلسطینیوں کو یہ اختیار دینے کی بات کی گئی تھی کہ وہ ایسے ممالک میں جائیں جو انہیں قبول کریں۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو کا امریکہ سے تجارتی خسارے اور رکاوٹوں کے خاتمے کا اعلان
اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ اسرائیل اپنے امریکہ کے ساتھ تجارتی خسارے اور تجارتی رکاوٹوں کو بہت جلد ختم کرے گا۔ نیتن یاہو نے بتایا کہ اسرائیل ان تمام تجارتی رکاوٹوں کو ختم کرے گا جو "بلا وجہ” عائد کی گئی تھیں۔نیتن یاہو کا کہنا تھا، "ہم فوری طور پر اور تیزی سے ان ٹیکسز کو ختم کریں گے۔” ان کے مطابق اسرائیل اور امریکہ کے درمیان تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات میں مزید بہتری آ سکے۔
اس بات کا ذکر کرتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور اسرائیل ان اقدامات کے ذریعے عالمی سطح پر تجارتی تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اسرائیل دوسرے ممالک کے لیے ایک نمونہ بنے تاکہ وہ بھی تجارتی رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔
یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کے بیشتر ممالک کے لیے جوابی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان ٹیکسوں میں اسرائیل کو بھی شامل کیا گیا تھا، جس کے تحت اسرائیل پر 17 فیصد ٹیکس عائد کر دیا گیا تھا۔ اس فیصلے نے دنیا بھر میں تجارتی تعلقات پر اثرات ڈالے ہیں اور اس کی وجہ سے اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا تھا۔
اس ملاقات میں، دونوں رہنماؤں نے مختلف عالمی مسائل پر گفتگو کی۔ ان مسائل میں اسرائیل کی غزہ میں جاری جنگ، ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کا مسئلہ اور اسرائیل کے داخلی معاملات شامل تھے۔ وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیوں کا دفاع کیا اور کہا کہ یہ کارروائیاں اسرائیل کی سلامتی کے لیے ضروری ہیں۔دوسری جانب، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کے دفاع میں ہر ممکن مدد فراہم کرے گا۔
اس دوران وائٹ ہاؤس کی جانب سے ایک اہم فیصلہ کیا گیا، جس میں ایک نیوز کانفرنس کو منسوخ کر دیا گیا۔ یہ نیوز کانفرنس اس دن کے آخر میں ہونے والی تھی، لیکن اچانک اس کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ وائٹ ہاؤس کے نیشنل اکنامک کونسل کے ڈائریکٹر کیون ہیسیٹ نے اس فیصلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ملاقات میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک غیر ملکی رہنما نے صدر ٹرمپ کے ساتھ تجارتی ٹیکس کے حوالے سے مذاکرات کرنے کی کوشش کی۔
اسرائیل پر عائد کیے گئے 17 فیصد ٹیکس کے نتیجے میں اسرائیلی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، جس سے تجارتی خسارے میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ تاہم، اسرائیل نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ ان ٹیکسوں کے خاتمے کے لیے اپنی پوری کوششیں کرے گا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات میں توازن پیدا ہو سکے۔
اس ملاقات کے بعد وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے امید ظاہر کی کہ امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات میں مزید بہتری آئے گی اور دونوں ممالک تجارتی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ قریب آئیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام نہ صرف اسرائیل کے مفاد میں ہے بلکہ امریکہ کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوگا۔ نیتن یاہو نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل دنیا کے دیگر ممالک کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے کہ وہ بھی تجارتی رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔اس کے علاوہ، نیتن یاہو نے اس بات کی وضاحت کی کہ اسرائیل کے لیے عالمی تجارتی تعلقات میں کامیابی کا راز امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے میں ہے۔








