ایک مضبوط عورت کی کہانی
دس سال پہلے جب میرے شوہر کا انتقال ہوا انکے بعد میں بالکل اکیلی ہو گئی، اور بہت ساری زمہ داریاں میرے کند ھوں پہ آنے والی تھی، لیکن میں ان خوش قسمت عورتوں میں سے تھی جن کی قسمت میں ایک خیال رکھنے والا اور ذمہ دار دیور تھا ۔ اس نے یقینی بنایا کہ میرے مرحوم شوہر کے (جو اس کے ساتھ کاروبار میں شریک تھے) تمام واجبات پورے کیے جائیں۔ مجھے مالی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا جن کا اکثر خواتین کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔لیکن پھر بھی کئی مسائل تھے۔ ہمارا بیٹا صرف چودہ سال کا تھا اور اچانک سے اسکے بہت سے’ دوست’ نمودار ہو گئے۔ یہ "دوست” پنجابی روایت کے مطابق سمجھتے تھے کہ اب یہ بچہ خاندان کا سربراہ ہے اور روایات کے مطابق مالی ذمہ داری اسی کی ہے۔ ہر کوئی اس سے اپنا مطلب نکالنا چاہتا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے، ماں یعنی میرے آڑے آنے سے ان کے منصوبے ناکام ہو گئے۔ میں ان کی قانونی سرپرست تھی اور ان کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ بنانا ایک طویل عمل تھا کیونکہ وہ ہمیشہ ان والد سے زیادہ قریب تھا جو ہم سے جدا ہو چکے تھے۔ یہ "دوست” ہمارے درمیان جتنا ممکن ہو سکے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے تاکہ اپنا مطلب حاصل کر سکیں۔ یہ ایک لمبی لڑائی تھی جس نے واقعی میرے اعصاب خراب کر دیے۔ آخرکار، وہ لوگ آہستہ آہستہ دور ہو گئے۔
میری زندگی بالکل بدل گئی تھی۔ ہر وہ طریقے سے جس طرح بدل سکتی تھی۔ میری 84 سالہ بیمار ماں کے علاوہ کوئی قریبی رشتہ دار نہ ہونے کی وجہ سے مجھے مختلف مردوں کی طرف سے پیش قدمیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے احساس ہوا کہ شوہر کے بغیر مجھے صرف ایک ایسی عورت کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، چاہے میری ساکھ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو۔ جب میں نے یہ بات اپنے ایک پرانے دوست سے شیئر کی تو اس نے آہستہ سے کہا، "ياسمین، پنجاب میں یہی تلخ حقیقت ہے کہ ایک عورت کسی کی زوجیت میں نہ ہو ، اکثر لوگ اسے اپنی بنانا چاہتے ہیں۔” ظاہر ہے، قانونی طور پر نہیں۔
یہ کہنا غلط ہو گا کہ مجھے رشتے کی پیشکش نہیں ملیں – وہ تو بالکل عزت والی بات ہے، لیکن مجھے ابھی اپنے خاندان کے لیے بہت سارے جنگ لڑنے تھیں، اور اسی لڑائی میں کہیں نہ کہیں میں نے اپنی خوشی، اپنا نرم مزاج اور زندگی سے محبت کھو دی۔ سنجیدہ ہونا میری دوسری فطرت بن گیا۔ ایک بات کا میں نے اپنے مرحوم شوہر سے وعدہ کیا تھا، چاہے کچھ بھی ہو جائے، جو کوئی بھی میرے گھر کی طرف دیکھے گا، وہ تباہ ہو جائے گا۔ میں نے وہی کیا جو کرنا ضروری تھا۔میری بیٹی، جو اپنے بھائی سے چار سال بڑی ہے، اپنے والد کے انتقال کے وقت لاء کالج میں داخل ہوئی تھی۔ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ اپنے والد کا نام روشن کرے گی اور اس نے ایسا ہی کیا۔ وہ لندن یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری میں دنیا بھر کے 180 ممالک میں سرفہرست رہیں، اور انفرادی مضمون میں بھی دنیا بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ آج کم عمری میں ہی وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں سینئر لیگل ایسوسی ایٹ ہیں۔وہی وہ واحد تھی جو میرے روحانی ساتھی کو کھونے کے غم کو سمجھ سکتی تھی۔ ہمارے کردار بدل گئے۔ وہ میری نگہداشت کرنے والی بن گئیں۔ ان کی موجودگی مجھے اپنے شوہر کی موجودگی جیسا احساس دلاتی تھی، وہی پیار، وہی بے لوث قربانی، انہوں نے مجھے ہر چیز رکھنا،
اس پوری جدوجہد میں ، میں نے اپنے بہت سارے دوست کھو کر تنہائی کو گلے لگا لیا، کیونکہ مجھے اپنے بچوں اور گھر کے لئے ہی کرنا تھا جو بھی کرنا تھا ،