مزید دیکھیں

مقبول

ایکس’ پر ایک دن میں تیسرا بڑا سائبر حملہ، صارفین پریشان

سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک...

انجیکشن سے ہلاکت انسانی غلطی کی وجہ سے ہوئی، وزیرصحت پنجاب

لاہور: وزیرصحت پنجاب سلمان رفیق نے میو اسپتال لاہور...

میرے برعکس ایمن خان کو ہمیشہ محبت اور احترام ملا ہے،منال خان

کراچی: پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ منال خان...

پنجاب سیاحت کا مرکز بنے گا، وزیراعلیٰ مریم نواز کا اعلان

اوچ شریف (نامہ نگار حبیب خان) وزیراعلیٰ پنجاب مریم...

عزت کی موت بھی ملتی نہیں غریب کو،تجزیہ:شہزاد قریشی

تجزیہ ،شہزاد قریشی
بقول شاعر ،ہر سمت ظالموں کی خدائی ہے اے خدا،
جینے کا حق نہیں ہے کسی بدنصیب کو،
اس عہد نامراد میں رزق حلال کیا ،
عزت کی موت بھی ملتی نہیں غریب کو،
سی پی او راولپنڈی کے آفس سے چند گز کے فاصلے پر تھانہ سول لائن سے لے کر گوجر خان تک لہو کےسفر کی خبروں نے ہلا کر رکھ دیا ، انسانی حقوق کی بازگشت پارلیمنٹ ہائوس سے لے کر اعلیٰ عدالتوں تک سنائی دیتی ہے مگر کیا انسانی حقوق صرف اس ملک کے جاگیرداروں، سرمایہ داروں، صنعتکاروں، اعلیٰ عہدوں پر فائز اہم شخصیات کے لئے ہیں، عام آدمی کے لئے انسانی حقوق کے قانون لاگو نہیں ہوتے؟ یہ سوال پارلیمنٹ ہائوس میں بیٹھے ارکان اسمبلی، اعلیٰ عدلیہ، سول انتظامیہ، آئی جی پنجاب، مقتدر حلقوں سے بھی ہے؟ ذیشان نامی ملزم راولپنڈی پولیس نے چوری کے مقدمے میں گرفتار کیا، دوران تفتیش راولپنڈی پولیس نے گوجرخان پولیس کے حوالے کر دیا ،مبینہ طور پر پولیس تشدد سے ملزم کی حالت غیر ہو ئی اور وہ موت کی آغوش میں چلا گیا ،مرحوم چور تھا یا نہیں سوال یہ ہے کہ پولیس کو تفتیش کرنے کا حق تو قانون دیتا ہے پولیس کو جان سے مار دینے کا حق کس نے دیا؟

یوں تو راولپنڈی کےسی پی او سمیت کچھ ایس پی اور ڈی ایس پی حضرات کی داستانیں زبان زدعام ہیں مگر اس دلخراش واقعہ نے راولپنڈی پولیس کی نااہلی، عدم کنٹرول، ڈسپلن کے فقدان اور خود احتسابی سے چشم پوشی آشکار کر رہی ہے ،سنتا جا شرماتا جا کی غیبی آوازیں ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں، راولپنڈی کی پولیس ہمیشہ ملک کے دیگر اضلاع اور ڈویژن سے مختلف اعلیٰ اقدار اور صلاحیتوں سے مزین افسران کا گلدستہ رہی ہے، یہاں چوہدری اسرار، رائو محمد اقبال، ناصر خان درانی، ڈاکٹر شعیب سڈل، سید سعود عزیز، فخر سلطان راجہ، طلعت محمود طارق، احسن یونس جیسے افسران اور دیگر بہت سے افسران جن کے نام یاد نہیں،تعینات رہے ان لوگوں نے راولپنڈی پولیس کی ورکنگ ڈسپلن، کارکردگی، اخلاق اور مورال کو ایک بلندی سے نوازا ،ان افسران کے کارناموں سزا و جزا کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے، آج راولپنڈی میں پولیس کی ہوس زر کی داستانیں زبان زدعام ہیں لینڈ مافیا سے یارانے، جوئے کے اڈوں سمیت دیگر اخلاقی جرائم میں اضافہ راولپنڈی پولیس پر سوالیہ نشان ہے؟

سی پی او سمیت راولپنڈی کے ایس پیز اور ڈی ایس پیز نے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی ان کاوشوں کو ٹھیس پہنچائی ہے جو وہ تھانہ اور چوکی کی سطح پر پولیس کے مورال اور عزت میں اضافے کے لئے دن رات کر رہے ہیں، راولپنڈی کے تھانوں اور علاقوں میں منشیات اور دیگر جرائم کا تقابلی جائزہ بھی شرمناک ہے، وزیراعلیٰ پنجاب اور مقتدر حلقوں کو یقیناً ضلع کی پولیس میں عمل تطہیر کے ذریعے ان داغوں کو دھونا ہوگا اگر استحکام پاکستان میں اس طرح کے افسران ہمسفر رہے تو پھر پاکستان کا خدا ہی حافظ ہے، راولپنڈی پولیس کے چند افسران نے راولپنڈی کو پولیس سٹیٹ بنا دیا ہے اور راولپنڈی کو اپنی ذاتی جاگیر تصور کررکھاہے جس میں عام آدمی کی کوئی شنوائی نہیں ہے۔