عزت نفس کا مقدمہ. تحریر:صائمہ مشتاق

ملک پاکستان کی فلاحی ساکھ اقوام عالم میں مثالی ہے۔یہاں انسانی خدمت پر معمور شخضیات نے نہ صرف عالم کو متحیر کیا بلکہ اُن کے دستیاب وسائل بھی اُن پر حیرت زدہ ہوئے۔اُن کے پاس زادِ راہ صرف سچا اور خالص انسانی خدمت کا جذبہ تھا۔گلی محلے کے نامعلوم افرادمینارِ فلاح بنے۔جذبے کی سچائی اور خدمت کے تسلسل نے انہیں فلاحی یونیورسٹی بنا دیا۔ اقوام عالم متوجہ ہوئیں اور انہیں عالمی اعزازات سے فخر مند کیا اُن کی خدمات کی تصدیق کی۔پاکستان کے امامِِ فلاح کے ابتدائی فلاحی دور کو پڑھا جائے تو انسانی بے توقیری اور الزامات کی عجب داستانیں فلاحی منظر نامے میں بکھری پڑی ہیں۔فلاح کا راستہ چننے اور انسانیت کی خدمت کے لیئے اپنے آپ کو وقف کرنے والوں کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے یا اُن کی خدمات کا احاطہ کیا جائے تو اُن کے آغاز سفر میں لا حق مسائل کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اُن کو پیش آنے والی مشکلات کا ادراک ہو سکتا ہے۔اُن پر لگائے جانے والے الزامات حاسدوں کے حملے قیاس آرائیاں کرپشن کی متحیر کرتی کہانیاں منفی پراپوگنڈہ جیسے تکلیف دہ رویوں کے درمیان اُنہوں نے اپنا سفر جاری رکھا۔خبر نہیں کہ ایسا ماحول اور ایسے رویے اُن کو اذیت دیتے تھے یا نہیں۔وہ مایوسی کا شکار ہوئے یا نہیں۔اُن کے قدم ڈگمگائے یا نہیں۔وہ اپنے مقصد سے پیچھے ہٹے یا نہیں۔ لیکن اُن کی کامیابیاں کہہ رہی ہیں کہ کسی بھی منزل پر پہنچنے کے لئے وسائل کی عدم دستیابی راہ میں حائل مسائل اور غیر متوقع مشکلات تو منزل تک پہنچنے کے سنگ میل ہوا کرتے ہیں۔جنہیں کامیابی کی منزل کے مسافروں کو یقیناًسامنا کرنا پڑتا ہے۔مسائل و مشکلات میں سے راستہ بناتے ہوئے اپنے سفر کے تسلسل کو جاری رکھنا ہوتا ہے۔ وہ غلطیوں اور خامیوں کو ماننے اور اُن سے سیکھنے والے ہوتے ہیں۔ستائش سے بے نیاز ہوکر کسی اجر کی توقع کے بغیر لمبا عرصہ گمنامی اور بے توقیری کے دائرے میں رہتے ہوئے محو سفر رہتے ہیں

کسی بھی انسان کو رویے مزاج اور مشکلات متاثر اوردکھی ضرورکر تی ہیں لیکن شاید وہ انہیں مشن کی تکمیل خدمت کی منزل کے حصول کے ٹولز بنا لیتے ہیں۔ شاید وہ مشکلات مسائل اور وسائل سے زیادہ اپنے مشن کو بڑا سمجھنے والے ہوتے ہیں۔وسائل کی عدم دستیابی کو اپنے سفر کو روکنے کا جواز نہیں بناتے۔وہ تو بے نامی کو ناموری دینے والے ہوتے ہیں۔ایک وقت آتا ہے جب وہ مشرق سے طلوع ہونے والے سورج کی طرح اپنی روشنی بکھیرنا شروع کرتے ہیں تو وہ انسانیت کی خدمت سے پہچانے جانے لگتے ہیں پھر انکی خدمت کا تسلسل انہیں گمنامی کی سیاہ رات سے پہچان کے آسمان کا روشن ستارہ بنا دیتا ہے۔خدمت کے وکٹری سٹینڈپر کھڑے یہ سارے فخراور تمام اعزازا ت حاصل کرنے والوں کا مشاہدہ کیا جائے تو مجھے خالی چراغوں سے آغاز سفر کرنے والوں کے ساتھ وہ لاتعداد گمنا م مالیاتی فلاح کرنے والے بلند قامت نظر آتے ہیں جنہوں نے فلاحی چراغوں میں مالیاتی تیل ڈال کر چراغوں کو نہ صرف روشنی عطا کی بلکہ اس روشنی کے تسلسل کوقا ئم رکھنے میں بھی معاون و مددگار رہے۔اس سلسلے میں اورسیز پاکستانیوں کا بھی تاریخ ساز مثالی اور متاثر کن ریکارڈ ہے۔انہی کے تعاون سے فلاح کے دیئے روشن ہیں۔یہی لوگ فلاحی دنیا کے برجِ ِفلاح ہیں۔انہی کے دم سے پاکستان کو دنیا بھر میں چیرٹی کو فنڈنگ کرنے والے ملک کا اعزاز حاصل ہوا۔پاکستان نے صحت،تعلیم اور دیگر فلاحی شعبوں میں دنیا کو متوجہ کیا۔فلاح کو کامیابی کا راستہ دینے سسکتی اور وسائل سے محروم طبقات کی خدمت دراصل مالیاتی خدمت سے جڑی ہوئی ہے۔مستقبل کے فلاحی پراجیکٹ کی پلانگ کرنے والے بھی اِسی طبقہ کے تعاون کے یقین پر ہی اپنے پراجیکٹ ڈیزائین کرتے ہیں۔پاکستان کی فلاحی اور عطیات دینے والی تاریخ مسلسل لکھی جا رہی ہے اس میں بڑ ی قد آور فلاحی شخصیات،ادارے اور عطیات دینے والوں کے کردار کی درجہ بندی ہو رہی ہے۔پاکستان میں روشنی بکھیرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے والوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ہو سکتا ہے کہ بعض فلاحی منصوبے شخصی کمزوریوں اور خامیوں سے یا کسی فلاحی ادارے کی انتظامی غلطیوں سے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے ہوں لیکن کوئی فلاحی منصوبہ اس وجہ سے نہیں رُکا کہ اُسے مالی معاونت حاصل نہیں ہو سکی۔پاکستان میں عام ڈونر کے علاوہ کارپوریٹ ڈونرز کا فلاحی سیکٹر میں بھر پور کردار ادا کر رہا ہے۔فلاحی شعبہ اب کراوڈ فنڈ ریزنگ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آئی ٹی اوردیگر ٹیکنالوجیز فلاحی مشکلات کو آسان بنا رہی ہیں۔زکاۃ اور صدقات میں مذہبی وابستگی والے افراد شاید آگے ہوں لیکن میرا ذاتی مشاہدہ ہے ہو سکتا ہے صیح نہ ہو۔ جو لوگ اپنے آپ کو کسی وجہ سے خطا کارمان کر اور اپنی غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے اپنے خالق و مالک سے معافی کی طلب میں انسانی فلاح کے لئے مالی معاونت کفارے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اُس کو راضی کرنے کی جستجو رکھتے ہیں۔اُن کے پاس نیکیوں کا تکبر تو نہیں ہوتالیکن معافی مانگنے اور اللہ کو راضی کرنے کی آپشن ہر وقت موجود رہتی ہے۔اللہ کی مخلوق کو وسیلہ بنا کر اُسے راضی کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔اُس کی دکھی اور مسائل زدہ مخلوق جب اپنے خالق کو دعا کی مس کال بھیجتی ہے تو مالک کسی کے دل میں مدد کا خیال ڈال کر مس کال کرنے والے پر کرم فرماتاہے۔وۂ شخص کس قدر ا فضل و معتبر ہوگا جس کے ذمے فطرت ڈیوٹی لگاتی ہے کہ میرے فلاں بندے کی دعا کی مس کال آئی ہے اس کے پاس پہنچو۔

اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس کے کتنے گناہ معاف ہوتے ہوں گے، کتنے درجات بلند ہوتے ہوں گے اور وہ مالک و خالق اُس سے کتنی جلدی راضی ہو جاتا ہوگا۔فطرت کے خود کار نظام نے خالق کی خلق کردہ کائناتوں کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ایک دفعہ ایک صحافی جوکہ دل کے عارضے میں مبتلا تھا ایمرجنسی کی حالت میں علاج کے لئے مالی مشکلات کی پوسٹ لگائی جس پر میں نے بھی مقامی سیاست دانوں کو متوجہ کرنے کے لئے سوشل میڈیا پر پوسٹ شیئر کی کچھ ہی دیر بعد بہت سارے احباب رابطے میں آگئے۔ایک نیک دل اورسیز پاکستانی نے رابطے میں آکر میرا اکاونٹ نمبر مانگا تو میں نے کہا کہ ضرورت مند کو رقم پہنچے میں دیر نہ ہو جائے اس لئے مریض کا اکاونٹ نمبر لے کر بھیجتا ہوں۔ اُس انسان دوست نے انتہائی مستعدی سے معقول رقم مریض کے اکاونٹ میں ٹرانسفر کر دی۔چکوال، لاوہ اور تلہ گنگ کے اورسیز پاکستانیوں نے بھی خوب حق ادا کیا لیکن ضرورت مند کی ضرورت پوری ہو گئی تھی باقی احباب کا شکریہ ادا کیا۔ذاتی دُکھی اسٹوری کو پبلک کرتے ہوئے مجھے بڑاعجیب لگ رہا ہے لیکن مجبوری ہے کہ یہی دُ کھی اسٹوری پراجیکٹ کی بنیادبن رہی ہے۔1995 سے دونوں آنکھیں کالے موتیے سے متاثر ہیں کچھ عرصہ کے بعدنظر کی عینک تجویز ہوگئی پھر ایک آنکھ کی نظر بالکل ختم ہوگئی۔ڈاکٹر سے آنکھ تبدیل کرنے کے متعلق مشورہ کیا تو ڈاکٹر نے کہا کہ سسٹم ہی ختم ہو گیا ہے اس لئے اب آنکھ تبدیل نہیں ہو سکتی کچھ عرصہ بعد دوسری آنکھ میں کالا موتیا ہونے کی وجہ سے اپریشن ہوا اور اب اس پر ہی زندگی کا انحصار ہے۔کافی عرصہ سے معمول کی مصروفیات میں تبدیلی آگئی ہے میں ڈرائیونگ نہیں کر سکتا، رات کو روشنی پھیل جاتی ہے سا منے سے آنے والی ٹریفک کے فاصلے کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا۔پیدل چلنے سے دائیں آنکھ میں نظر نہ ہونے کی وجہ سے دائیں طرف نظر نہیں آتا تو عموما ًکسی پیدل چلنے والے سے ٹکر لگ جاتی ہے کئی دفعہ موٹر سائیکلوں سے ٹکرا چکا ہوں اس لئے گھر تک ہی محدود رہتاہوں۔نہ جانے کب زندگی سفید چھڑی کی محتاج ہو جائے،پھر کسی اور کی آنکھوں سے راستہ دیکھنا پڑے۔کئی سالوں سے یکسانیت اور بے مقصد زندگی گزارتے گزارتے ایک دن میرے ذہن میں خیال آیا کہ جو بھی مہلت میسر ہے کیوں نہ اُ سے بامقصد بنایا جائے اور کوئی ایسا کام کیا جائے جو انسانی بھلائی کے لئے ہو تو میرے ذہن میں آنکھوں کے فری ہسپتال بنانے کا خیال آیا یہ جو خیال ہو تا ہے اُسے بھی یقیناً کوئی بھیجتا ہے۔میں نے کئی ماہ اس پر غور کیا اور بالاخر میر ے انفرادی فیصلے کو میرے دل اور دماغ نے قبول کرلیا۔انسان کی زندگی خوابوں سے جڑی ہوتی ہے اور ان خوابوں کی تعبیر کا حصول ہی در حقیقت اس کے سینے میں موجود دل کی دھڑکنوں کوقائم رکھتا ہے۔جب تک خواہش ہوتی ہے انسان اس خواہش کے حصول کے لئے خود کو متحرک رکھتا ہے اور جب خواہشیں ختم ہو جاتی ہیں تو جسم زند ہ رہتا ہے لیکن زندگی دم توڑجاتی ہے۔خواہش کا موجود رہنا زندگی کی علامت ہوتی ہے۔خواہش امید سے جڑی ہوتی ہے اور امید یقین قائم رکھتی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ خواہشوں کا رنگ بدلتا رہتا ہے۔کبھی کوئی اہرا م ِمصر بنانے کی خواہش کرتا ہے اور کبھی کوئی تاج محل تعمیر کرنے کا سوچتا ہے۔کوئی یونیورسٹی بنانے کا ارادہ رکھتاہے۔خواہش ہی ہولی فیملی،گلاب دیوی ہسپتال بنواتی ہے۔خواہشیں روپ بدل لیتی ہیں صدقہ جاریہ کی خواہش۔

دکھی انسانیت کے لئے آسانیاں بانٹنے کی خواہش۔ایمان سلامتی کی خواہش۔آنکھوں کے خواب تعبیر مانگتے ہیں۔آنکھوں میں خوابوں کی ہریالی نہ ہو تو زندگی صحراکی ریت ہو جاتی ہے۔دل اجڑ جاتے ہیں اور پھر دماغ سوچنے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔خواہشیں،آرزوئیں اور تمنائیں زندگی کو حرارت بخشتی ہیں ان کا قابل عمل ہونے یا نہ ہونے سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔خواہشوں اور خوابوں کے رک جانے سے نہ صرف زندگی رکتی ہے بلکہ کائنات تھم جاتی ہے۔25بیڈ کے آنکھوں کے جدید چیرٹی ہسپتال پراجیکٹ کے ابتدائی مرحلے میں 15 سے20 کنال زمین کا عطیہ، دوسرے فیز میں ہسپتال کی بلڈنگ کی تعمیر اورا ٓخری فیز میں مشینری، آلا ت کی ضرورت ہوگی۔سمیڈا کی2016 کی فزیبیلٹی 23 کروڑ روپے کی تھی جس میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔اس پراجیکٹ سے سالانہ 27300 مریض مستفید ہوسکتے ہیں۔160 سے 200 افراد کو ملازمت کے مواقع میسر آسکتے ہیں۔کسی عوامی بھلائی کے نیک مقصد منصوبے کے لئے کسی سے مالی معاونت کے حصول میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی جاتی اور نہ ہی کرنی چاہئے۔لیکن میرے ساتھ ایک المیہ ہے کہ میں اپنے دیئے ہوئے پیسے بھی نہیں مانگ سکتا۔اسی کمزوری کی وجہ سے ایک سال سے اس منصوبے کی امانت دل اور دماغ میں چھپائے پھرتا ہوں۔فیس بک پر میری فرینڈ لسٹ میں چکوال سے غفران عمر جو فیس بک پر پوسٹ کے ذریعے مالی امداد حاصل کرکے مستحقین کے گھروں تک پہنچا رہے ہیں۔اب تک بقول اُن کے وۂ کروڑوں روپے کی امداد تقسیم کر چکے ہیں ایک دن انہوں نے پوسٹ لگائی کہ فلاحی کام کرنے والوں کو عزت نفس کا صدقہ کرنا پڑتا ہے۔ مجھے ان کی پوسٹ سے حوصلہ ملا اور میں اس حوصلے کے یقین پر عملی مرحلے کی طرف بڑھنے لگا ہوں۔مجھے اس بات کا ادراک ہے کہ تصوراتی پراجیکٹ قابل عمل نہیں ہوتے شروع شروع میں ناممکن ہوتے ہیں لیکن ہو جانے کے یقنِ کامل،جہد مسلسل اور مخلص ٹیم سے قابل عمل ہو جاتے ہیں۔صاحبو!مجھے صرف یقین ہی نہیں کامل یقین ہے کہ جس کاساری کائنات پہ تسلط ہے،جو سارے نظام پرمحیط ہے ا ور جس سے سبب اسباب مانگتے پھرتے ہیں کیوں نہ کامیابی کی،برکت کی، وسائل کی د عا مانگ لی جائے، وۂ عطا کرنے والا ہے مانگنے سے راضی ہو جا تا ہے۔آپ احباب بھی کامیابی کی دعا کا صدقہ ضرور کریں۔اندھیرے کو روشنی میں بدلنے کے لئے مجھے آپ کا ساتھ چاہیے ہوگا اور تسلسل کے ساتھ چاہیے ہوگا۔ اندھیرے کی لڑائی میں فتح مندی کا گُر امجد اسلام امجد نے بتا دیا ہے۔
اندھیرے سے لڑائی کا یہی احسن طریقہ ہے۔۔۔تمھاری دسترس میں جو دیا ہو وۂ جلا دو

Comments are closed.