ہم ایک ایسے سماج میں سانس لے رہے ہیں جہاں نکاح، جو قرآن کی رو سے عبادت ہے، معاشرتی عزت کے "قانون” کے خلاف جائے تو جرم بن جاتا ہے۔ جہاں بیٹی کا مسکرانا گوارا ہے، مگر اس کا فیصلہ کرنا ناقابلِ برداشت۔ جہاں بیٹی کے ہاتھ میں اگر قرآن ہو بھی، تب بھی اس کے حقِ انتخاب پر گولی حلال اور محبت حرام سمجھی جاتی ہے۔

حالیہ دنوں ایک ایسا لرزہ خیز واقعہ پیش آیا، جس میں ایک جوڑے کو، جو مکمل شرعی نکاح کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہے تھے، ایک قبائلی غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ انہیں خوشی کی تقریب کے بہانے بلایا گیا، مگر وہ دعوت کھانے کی نہیں تھی، وہ غیرت دکھانے کی تھی۔ قرآن کے سائے میں بندوقوں کے سامنے کھڑے کیے گئے ان دو انسانوں نے موت کو سامنے دیکھا، مگر پیچھے نہیں ہٹے۔ لڑکی کے ہاتھ میں قرآن تھا، اور زبان پر سکوت۔ اس نے بس اتنا کہا: "صرف گولی مارنے کی اجازت ہے۔”

یہ جملہ فقط ایک جملہ نہیں تھا، یہ پوری صدیوں پر محیط خاموش چیخ تھی—اس چیخ سے بلند، جو مظلوم عورتوں نے آج تک کبھی نہ نکالی۔ لیکن جو نکاح کے دائرے میں اپنی مرضی سے جینا چاہے، اس کے لیے نہ چیخ کا حق ہوتا ہے، نہ رحم کی کوئی گنجائش۔

ہمیں سوچنا ہوگا:
اگر نکاح جرم بن جائے،
اور محبت گناہ،
تو پھر دین کی کون سی بنیاد سلامت رہے گی؟

قرآن مجید سورۃ النساء کی تیسری آیت میں واضح ارشاد فرماتا ہے:
"فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم…”
"نکاح کرو ان عورتوں سے جو تمہیں پسند آئیں۔۔۔”

یہ آیت دونوں فریقین کے انتخاب کی آزادی کو تسلیم کرتی ہے۔ نہ صرف مرد کو، بلکہ عورت کو بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ نکاح کے فیصلے میں اپنی پسند کو مقدم رکھے۔ یہ شریعت کا دیا ہوا اختیار ہے، نہ کہ کوئی مغربی نظریہ یا غیر شرعی دعویٰ۔ مگر افسوس، ہمارے قبائل، ہمارے معاشرتی ادارے، اور بعض اوقات ہمارے گھروں کے در و دیوار بھی اس اختیار کو بغاوت سمجھتے ہیں۔

اصل مسئلہ غیرت نہیں، بلکہ اختیار کا ہے۔ عورت کے فیصلے کو تسلیم کرنا، ایک ایسی برابری ہے جو مردانہ انا کو قبول نہیں۔ اسی لیے جب کوئی عورت اپنی مرضی کا اظہار کرتی ہے، تو یہ "غیرت کے خلاف” گناہ قرار پاتا ہے۔ اور اس گناہ کا کفارہ صرف موت ہے—وہ بھی زندہ گواہیوں کے سامنے۔

اسلام میں غیرت کا مفہوم عزت، حیاء، اور طہارت سے جڑا ہوا ہے۔ مگر ہم نے اسے بندوق، قتل اور دھمکی سے منسلک کر دیا ہے۔ غیرت اب ایمان کا جزو نہیں رہی، بلکہ مردانگی کے زخم پر رکھی جانے والی پٹی بن چکی ہے۔ جس کی تہذیب، تربیت اور تقویٰ سے کوئی نسبت نہیں۔

سوال یہ نہیں کہ صرف ایک بیٹی ماری گئی۔ سوال یہ ہے کہ جس معاشرے میں قرآن کے ساتھ کھڑے ہونے والی کو گولی مار دی جائے، وہاں دین اور ظلم کا فاصلہ کتنا رہ جاتا ہے؟

یہ قتل ایک لڑکی کا نہیں تھا—یہ قتل تھا اُس حق کا جو دین نے اسے دیا۔ یہ قتل تھا اُس قرآن کی سچائی کا، جسے اس نے اپنا محافظ سمجھا۔ یہ قتل تھا اُس اسلام کا، جس نے لڑکی کو دفن ہونے سے بچایا، مگر ہم نے اُسے نکاح کے بعد دفن کر دیا۔

آج اگر ہم خاموش رہے، تو کل نہ صرف مزید بیٹیاں مریں گی، بلکہ اسلام کی روح، اس کی تعلیمات، اور اس کا پیغام بھی قاتلوں کی زبان پر رسوا ہوتا رہے گا۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم پگڑی بچانے کی غیرت کے بجائے بیٹی بچانے کی غیرت کو زندہ کریں۔ وقت آ گیا ہے کہ قبیلے کی عدالت کے بجائے قرآن کی عدالت کو مانا جائے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم فیصلہ کریں—کیا ہم قرآن کے ساتھ ہیں یا اس کے خلاف؟

اگر معاشرہ قاتل ہے،
تو ہمیں گواہ بننا ہوگا—
اسلام کے، انصاف کے، اور انسانیت کے۔

Shares: