تاریخ پر نظر رکھنے والے اور لکھنے والے، دل چسپ شخصیات ہوتی ہیں۔ان کی زندگی کے بھی نشیب و فراز ہوتے ہیں لیکن اپنی زندگی کو پس پردہ رکھتے ہوئے ملکی اور غیر ملکی تاریخ کے گم شدہ گوشوں سے اپنے قارئین کو دیدہ دلیری سے آشنا کرتے ہیں۔تاریخ سے دل چسپی رکھنے والے اور تحقیق کرنے والے طالب علموں کے لیے قیمتی خزانے فراہم کرتے ہیں۔کہتے ہیں تاریخ بڑی ظالم ہوتی ہے کسی کو معاف نہیں کرتی۔یہ مورخ ہی ہوتے ہیں جو ان کے گم شدہ اوراق پاتال سے بھی نکال لاتے ہیں۔
صحافتی پیشہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے ہر لمحہ نئی سے نئی خبر اپنے قارئین تک پہچانا،اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر حقائق سامنے لا کر اپنا حق ادا کرتے ہیں۔صحافی ہر گزرتے لمحے اور مستقبل پر گہری نظر رکھے ہوئے ہوتا ہے اور مشاہدے اور تجزیے سے معلومات فراہم کرتا ہے۔تاریخ ایسے صحافیوں کو یاد رکھتی ہے جو حق،سچ پر اپنی جان تک نچھاور کردیتے ہیں۔ڈاکٹر فاروق عادل بھی انھی شخصیات میں سے ایک ہیں ، ڈاکٹر فاروق عادل کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ان کا قلم حق سچ کا علم بردار ہے۔ملکی و غیر ملکی سیاسی اتار چڑھاؤ پر گہری نظر رکھتے ہیں اور خوب تجزیہ کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے پڑھنے والے ان کی کتب کے منتظر رہتے ہیں۔جب کتاب منظر عام پر آتی ہے تو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتی ہے اور تھوڑے ہی عرصے میں ایڈیشن ختم ہو جاتا ہے۔
حکومت ِپاکستان ان کے کام سے متاثرہوکر تمغۂ امتیاز سے نواز چکی ہے۔آج ہم ان کی تازہ ترین کتاب ”جب مورخ کے ہاتھ بندھے تھے“پہ لب کشائی کرتے ہیں۔یہ شان دار کتاب حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے اور ہر طرف اس کے چرچے ہیں۔علامہ عبدالستار عاصم اور سلمان علی چودھری نے خاص اہتمام سے قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے پلیٹ فارم سے شائع کی ہے۔علامہ عبدالستار عاصم کتاب دوست ہیں اور کتب بینی کے فروغ کے لیے متحرک شخصیت ہیں۔ادبی دُنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔خود بھی صاحب ِکتاب ہیں اور کتاب دوستوں سے خاص محبت رکھتے ہیں۔انھی کی کاوشوں سے ہم بہترین قلم کاروں اور کتب سے آشنا ہوتے ہیں۔اس حوالے سے ڈاکٹر فاروق عادل ”چند باتیں“میں اس طرح خراج ِتحسین پیش کرتے ہیں:”بردار محترم علامہ عبدالستار عاصم کے دست ہنر نے جادو گری دِکھائی۔انھوں نے چند ہی روز میں دوسرا ایڈیشن بھی شائع کردیا۔ان کے گودام میں اب اس ایڈیشن کا بھی کوئی نسخہ باقی نہیں بچالہٰذا اب وہ تیسری اشاعت کی نیت باندھ رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کے کام میں برکت پیدا فرمائے۔آمین۔“
”جب مؤرخ کے ہاتھ بندھے تھے“کے حوالے سے ”عرفان صدیقی“صاحب لکھتے ہیں ”ڈاکٹر فاروق عادل ایک پختہ کار اور شگفتہ نگار محقق کے طور پر اپنی پہچان رکھتے ہیں۔”جب مورخ کے ہاتھ بندھے تھے“گئے دنوں کا سراغ لگانے کی نہایت عمدہ کاوش ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود لکھتے ہیں:”پاکستان کی تاریخ کے مختلف پہلوؤں پر فاروق کی پہلی کتاب ”ہم نے جو بھلا دیا“سامنے آئی تو معلوم ہوا کہ صحافت کے ہنر کے ساتھ ایوان اقتدار کے مشاہدے نے تجربے کو دو آتشنہ کر دیا ہے۔فاروق کی اس کتاب نے پورے ملک کو متوجہ کیا۔ایک کتاب کے ایک ہی ماہ میں دو ایڈیشن شائع ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔اب ”جب مؤرخ کے ہاتھ بندھے تھے“اسی سلسلے کی اگلی کڑی ہے جس میں میرا یہ شاگرد عزیز تحقیق کے جنگل میں اُتر کر ایسے حقائق تلاش کر لایا ہے جو حیرت انگیز بھی ہیں اور عبرت خیز بھی۔یہ کتاب ایک ایسا آئینہ ہے جس کی مدد سے ہم اپنا چہرہ بھی خوش نما بنا سکتے ہیں اور بہتر مستقبل کی تعمیر بھی کر سکتے ہیں۔حرف آخر یہ کہ یہ کتاب طالب علموں،صحافیوں،اساتذہ،سیاست دانوں اور حکمرانوں سب کے لیے ہے۔“
”جب مؤرخ کے ہاتھ بندھے تھے“پڑھنے کے بعد ہم بھی ڈاکٹر طاہر مسعود صاحب کے ساتھ مکمل اتفاق کرتے ہیں۔اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے کئی گم شدہ پہلوؤں سے پردہ چاک ہوا ہے اور حیرت بھی۔اچھا ایسابھی ہوتا ہے۔ایسا بھی ہوا تھا،ایسا بھی ہوتارہا ہے۔جیسے سوچیں پاتال سے سر اٹھاتی ہیں۔اس کا ثبوت”ایپی فقیر“کتاب کا پہلا مضمون ہی بین ثبوت ہے۔پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس کے پیچھے ہزاروں داستانیں ہیں۔کہیں ایک ماشکی کا بیٹا حکمران بن جاتا ہے تو کہیں ایک امام مسجد سے حکمران اور طاقت والے سر نگوں دکھائی دیتے ہیں۔پاکستان کے قیام کے بعد بھی ہزاروں کہانیاں جنم لے چکی ہیں جو عام انسان سے پسِ پردہ ہیں۔ڈاکٹر فاروق عادل جیسے بے باک،نڈر قلم کار ہی ایسے گم شدہ گوشوں سے پردہ اٹھا سکتے ہیں۔مجھے خوشی ہے ان کا قلم اسی راہ کا مسافر ہے۔
”جب مؤرخ کے ہاتھ بندھے تھے“کا انتساب ”ہاتھ پکڑ کر لکھنا سکھانے والوں کے نام ہے جن میں ڈاکٹر فاروق عادل کے استاد گرامی پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود اور پروفیسر ارشاد حسین نقوی کے نام ہے۔ترتیب سے پہلے مسدسِ حالی سے تاریخ کے عکاس اشعار دیے گئے ہیں:
کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لب ِجو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں
یونہی چلتی رہتی تھی تلواران میں
”جب مؤرخ کے ہاتھ بندھے تھے“33عنوانات سے تاریخ کے گم شدہ گوشوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔جیسے ”مولانا طارق جمیل کا عشق“۔”صالحین کی نرسری“،”بھٹو اور نواز شریف“،”بھونکنے پر پابندی“،”وہ ایٹمی چھکا“،”الف لیلوی نواب“اور”جب بھارتی شہری وزیراعظم پاکستان بنتے بنتے رہ گیا“۔ان جیسے عنوانات سے آپ باخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کے اندر کیا کیا کہانیاں ہیں۔ان کہانیوں سے ڈاکٹر فاروق عادل صاحب نے دلیری سے پردہ اٹھایا ہے۔
”جب مؤرخ کے ہاتھ بندھے تھے“290صفحات کی ضخامت رکھتی ہے۔آخری صفحات پر سیاست دانوں،حکمرانوں اور تاریخی شخصیات کی تصاویر بھی دی گئی ہیں۔ڈاکٹر فاروق عادل اپنی مشاہدات اور تجربات بیان کرتے ہوئے مختلف کتب کے حوالے بھی دیتے ہیں۔یہاں سے باخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ لکھنے کے لیے مطالعہ بھی ضروری ہے جس طرح ڈاکٹر فاروق عادل کتب بینی کرتے ہیں اسی طرح ہمیں بھی تحریک ملتی ہے۔اچھی معیاری اور بہترین کتب سے جانکاری ہوتی ہے۔کتب بینی کا ذوق پروان چڑھتا ہے۔ان کے ہر مضمون میں آپ کو تاریخی کتب کے حوالے ملیں گے۔یوں آپ ایک کتاب پڑھتے ہوئے کئی کتب سے متعارف ہو جاتے ہیں۔اپنے ذوق کی تحسین کے لیے ان کتب کا مطالعہ بھی کر سکتے ہیں۔
”جب مؤرخ کے ہاتھ بندھے تھے“پہ اظہار ِ خیال کرتے ہوئے ”وجاہت مسعود“لکھتے ہیں:”ہر عہد میں چند افراد ہی ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ میں اپنی نسل کا نشان بلکہ جواز قرار پاتے ہیں۔ڈاکٹر فاروق عادل کے اس دیرینہ نیاز مند کی رائے ہے کہ ہم عصر صحافیوں میں ڈاکٹر صاحب کا شمار ایسے ہی کم یاب قافلے کی صف اول میں ہوتا ہے۔ایسے عبقری اپنے زمانے کی پامال راہوں سے ہٹ کر راستہ نکالا کرتے ہیں۔ڈاکٹر فاروق عادل نے بھی رائج الوقت صحافت سے انحراف کرتے ہوئے کچھ ایسی خوبیوں کے جلو میں اپنی پہچان بنائی ہے جنھیں اپنانے اور استقلال سے نبھانے کے لیے پہاڑ ایسی استقامت کی گہرائی،صحافتی اقدار کی پیروی،زبان وبیان کی نتھری ہوئی سلاست،رائے کا اعتدال،دوست دشمن میں امتیاز کیے بغیر بے لاگ تجزیہ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لب ولہجے کی ایسی متانت کہ مخالف رائے رکھنے والا بھی قائل ہو یا نہیں،کم از کم بد مزہ نہیں ہو سکتا۔“
میں یہ کتاب”جب مؤرخ کے ہاتھ بندھے تھے“پڑھنے کے بعد وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ وجاہت مسعود صاحب نے بالکل حق اور سچ کہا ہے۔میری دعا ہے ڈاکٹر فاروق عادل صاف ستھری صحافت کرتے رہیں اور تاریخ کے گم شدہ اوراق سے پردہ اٹھا کر ہمیں فیض یاب کرتے رہیں آمین۔








