کوئی منصف کسی مجرم کو سزا کیسے دے
جب عدالت میں وکیلوں کی سفارش ہوگی
آرتی کماری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ ولادت:25 مارچ 1977ء
جائے ولادت:گیا، بہار
والد کا نام:الکھ نرنجن پرساد سنہا
والدہ کا نام:ریتا سنہا
شوہر کا نام:مادھویندر پرساد
موجودہ/مستقل پتا:ششی بھون، آزاد کالونی، روڈ 3
ماڑی پور، مظفر پور بہار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آرتی کماری کی شاعری سے انتخاب
عشق میں وصل کم تھا جدائی بہت
کروٹوں میں سسکتی رہی زندگی
تُو نہیں ہے زیست میں تو تیرگی ہے ہر طرف
ہجر کی تنہائی میں دل کو جلایا جائے گا
زخم اتنے دیجئے جتنے کہ سہہ پاؤں گی میں
درد گزرا حد سے تو ہمت میری بڑھ جائے گی
آہٹ سی کیا ہوئی کہ مرا دل سہم گیا
اب دل کی دھڑکنوں کو جگانے لگے ہیں آپ
اوروں کے عیب دیکھیے اِک شرط ہے مگر
اک روز اپنے گھر کے بھی حالات دیکھیے
دل کی دھڑکن ذرا تیز ہونے لگی
پاؤں جب بھی بڑھے تیرے گھر کی طرف
میری دنیا میرا مسکن میری جنت تُو ہے
مجھ کو سینے سے لگا پاس بلا لے مجھ کو
دور تک ریت ہے نہ دریا ہے
پیاس کو پیاس سے پیا کیجے
جن کے لیے تھی دل کی وہ محفل سجی ہوئی
آئے نہیں وہ رسم نبھانے تمام رات
میں تو بکھرنے والی تھی راہِ حیات میں
تُو بن کے حوصلہ ملا تو مَیں سنور گئی
غم سے جب ملنا ملانا ہو گیا
کم خوشی کا آنا جانا ہو گیا
تیرے ہمراہ یوں چلنا نہیں آتا مجھ کو
وقت کے ساتھ بدلنا نہیں آتا مجھ کو
ہر طرف ہے شور جاری خوف طاری ہے
من ویوتھت ہے سانس بھاری خوف طاری ہے
يدُھ میں کتنے ہی نر سنہا ر کا کارن بنا تھا
دروپدی کا وہ کٹل پریہاس ہم سب جانتے ہیں
منگل راہو کیتو شنیچر جب بھی آنکھ دکھاتے ہیں
جپ تپ سنیم دان سے اکثر اُن کو مناتی میری ماں
نہ گھبرائیں گے بادھا سے نہ ہا ریں گے نراشا سے
چلیں گے مشکلوں کو پار کر اگلی صدی میں ہم
پریم کی بھاونا رکھو من میں
پشپ کھلتے ہیں جیسے اپون میں
تُم بھی رم جاؤ اس طرح مجھ میں
جیسے مِیرا رمی ہے موہن میں
خامشی بڑھنے لگی ہے آرتی
حال آنکھوں سے سنانا چاہئے
یہ دیکھیے کہ پیاس ہےہونٹوں پہ کس قدر
آنکھوں کے درمیان سمندر نہ دیکھیے
میرا سایہ بچھڑ گیا مجھ سے
دھوپ سر سے اُتر گئی ہوگی
غزل
۔۔۔۔۔
تری یاد میں جو گزارا گیا ہے
وہی وقت اچھا ہمارا گیا ہے
بھلا اور کیا اپنا پن وہ دکھائے
ترا نام لے کر پکارا گیا ہے
تمہیں میری حالت پتہ کیا چلے گی
مرا جو گیا کب تمہارا گیا ہے
تمہیں عشق کا آئنہ مان کر کے
مقدر کو اپنے سنوارا گیا ہے
عجب ہے محبت کا میدان یارو
نہ جیتا گیا ہے نہ ہارا گیا ہے
لکھا ریت پر نام میں نے تمہارا
ندی میں بھی چہرہ نہارا گیا ہے
ہے میری بھی عادت تمہارے ہی جیسی
ہر اک رنگ مجھ پہ تمہارا گیا ہے
غزل
۔۔۔۔۔
مشکلیں لاکھ ہوں لیکن مری خواہش ہوگی
آپ کا ساتھ نبھانے کی تو کوشش ہوگی
تہمتیں کتنی لگاؤ گے محبت پہ مری
اس سے تو شہر میں نفرت کی نمائش ہوگی
ان اندھیروں سے کوئی خوف نہیں ہے مجھ کو
میں سمجھتی ہوں یہاں نور کی بارش ہوگی
کوئی منصف کسی مجرم کو سزا کیسے دے
جب عدالت میں وکیلوں کی سفارش ہوگی
اب تو مظلوم بھی خنجر کا سہارا لے گا
نہ کوئی ونتی کرے گا نہ گزارش ہوگی
غزل
۔۔۔۔۔۔
تمہیں دنیا کی نظروں سے بچا کر ساتھ رکھنا ہے
مری چاہت کا خط ہو تم چھپا کر ساتھ رکھنا ہے
مرے آنگن میں ٹھہرے ہیں تمہاری یاد کے سائے
تمہارے آنے تک دل سے لگا کر ساتھ رکھنا ہے
کہانی کی طرح تم کو سنا سکتی نہیں سب کو
تمہیں گیتوں کے جیسے گنگنا کر ساتھ رکھنا ہے
سجانا ہے کبھی ہاتھوں میں مہندی کی طرح تجھ کو
کبھی آنکھوں میں کاجل سا سما کر ساتھ رکھنا ہے
میں تتلی کی طرح ہوں پھول کے جیسا ہے تو ہمدم
میں دل ہوں سو تجھے دھڑکن بنا کر ساتھ رکھنا ہے
سفر مشکل بہت ہے اور منزل دور ہے اپنی
ہمیں مشکل کو ہی ہمت بنا کر ساتھ رکھنا ہے