جبری نکاح اسلام کی روشنی میں

ازقلم غنی محمود قصوری

کچھ دن سے سوشل میڈیا پہ ایک ویڈیو بہت زیادہ وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک باشرع شحض ایک لڑکی سے زور زبردستی سے نکاح نامے پہ دستخط کروا رہا ہےاس کے ساتھ دیگر گھر والے بھی موقعہ پہ موجود اور شامل نکاح ہیں جس کے باعث کچھ لوگ اسلام پہ تنقید کرتے ہوئے اسے جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں اس معاملے میں اسلام کا نا تو کوئی قصور ہے بلکہ یہ سارا معاملہ ہی اسلام کے خلاف ہے کیونکہ اگر اسلام کی رو سے دیکھا جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ آیا ایسا نکاح جائز ہے ؟-

کیا دین میں جبر جائز ہے؟

ہرگز نہیں نا تو دین اسلام میں جبر جائز ہے اور نا ہی جبری نکاح ،جہاں اسلام نے مرد کو پسند نا پسند کا حق دیا ہے وہیں عورت کو بھی نکاح میں پسند نا پسند کا پورا حق دیا ہے ،اسلام کی رو سے لڑکی کی شادی کے لئے ولی کا ہونا لازم شرط ہے،کئی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ باکرہ عورت کی اجازت خاموشی ہے یعنی عورت اگر ولی کے سامنے مزاحمت نا کرے خاموش رہے تو نکاح جائز ہے-

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے

الثَّيِّبُ أحقُّ بنفسِها من وليِّها والبِكرُ تستأمرُ وإذنُها سُكوتُه
(صحيح مسلم 1421)
ترجمہ: ثیبہ اپنے نفس کا اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے اور کنواری لڑکی سے اس کے بارے میں اجازت لی جائے گی اور اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے

جبکہ ایک اور جگہ ارشاد ہے

لا تُنكَحُ الأيِّمُ حتى تُستأمَرَ، ولا تُنكَحُ البكرُ حتى تُستأذَن. قالوا: يا رسولَ الله، وكيف إذنُها؟ قال: أن تسكُتَ
(صحيح البخاري:5136)
ترجمہ:بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے،صحابہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ کنواری عورت ازن کیونکر دے گی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی-

عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں

أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ قالَ ليسَ للوليِّ معَ الثَّيِّبِ أمرٌ واليتيمةُ تستأمرُ وصمتُها إقرارُها
(صحيح أبي داود:2100)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ولی کا ثیبہ عورت پر کچھ اختیار نہیں، اور یتیم لڑکی سے پوچھا جائے گا اس کی خاموشی ہی اس کا اقرار ہے، اسلام میں جبر نہیں کسی بھی امور پہ جبری نہیں ماسوائے چند ایک امور کے وہ بھی صرف مسلمان پہ خاص طور پہ جبری نکاح میں بلکل بھی جبر جائز نہیں جہاں ولی کا راضی ہونا لازم ہے وہیں عورت کا راضی ہونا بھی لازم ہے-

اس بارے ارشاد باری تعالیٰ ہے

فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ. (البقرہ : 232)

’تو اے عورتوں کے والیو، انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جبکہ آپس میں شریعت کے موافق رضا مند ہوں،

درج بالا آیت قرآن سے ثابت ہونا جہاں ولی کی رضا مندی لازم ہے وہیں عورت کی رضامندی بھی لازم و ملزوم ہے لہذہ عورت پہ زبردستی کرکے نکاح نہیں کروایا کا سکتا ایسا نکاح، نکاح نہیں بلکہ زنا ہو گا اور اس کا سارا وبال اس ولی و گواہان پہ ہو گا اور ایسے کسی واقعے پہ اسلام پہ وار کرنا جائز نہیں کیونکہ اسلام نے ایسے عمل کو گناہ قرار دیا ہے اور دین اسلام وہ واحد دین ہے جس نے مرد کیساتھ عورت کو بھی یکساں حقوق دیئے ہیں وگرنہ دیگر دینوں میں دیکھ لیجئے ساری ساری زندگی عورتیں کنواری گزار دیتی ہیں اور جن کا شوہر مر جائے ان کو دوسری شادی کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ پہلے تو ان کو خاوند کے ساتھ زندہ دفن کر دیا جاتا تھا مگر اس سب کو اسلام نے روکا حتی کہ اسلام نے ناپسندی کی صورت میں عورت کو خلع لینے کا اختیار دیا-

Shares: