چیئرمین خدمت خلق مرکزی مسلم لیگ شفیق الرحمان وڑائچ نے لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ جلال پور پیر والا میں سیلاب سے خوفناک تباہی ہوئی، حکومت ریسکیو کے نام پر قوم کو دھوکہ دے رہی،سرکاری 11 کشتیاں ہیں جن میں سے 9کے انجن خراب ہیں، چنے کے پیکٹ دے کر حکومت متاثرین کو کہہ رہی کہ دس دن کی خوراک ہے، خدا کے لئے حکومت متاثرین کے ساتھ مذاق بند کرے

چیئرمین خدمت خلق مرکزی مسلم لیگ شفیق الرحمان وڑائچ کا کہنا تھا کہ صحافی برادری سیلاب متاثرین کی آواز بنی ، انکے شکر گزار ہیں، سیلاب نے وطن عزیز کو بری طرح متاثر کیا ہے، اس میں بہت سی چیزیں نظر انداز ہوئیں انکو آج اجاگر کریں گے، تا کہ جو لوگ مشکل میں پھنسے ہیں ان کی مدد کر سکیں اور کسی بڑے انسانی المیے سے بچ سکیں، غذر سے لے کر خیبر پختونخوا، شانگلہ ،باجوڑ، مینگورہ سمیت دیگر علاقے سیلابی صورتحال سے متاثر ہوئے، بابو سر میں کلاؤڈ برسٹ ہوا وہاں امدادی سرگرمیاں ہماری جاری تھیں کہ اطلاع ملیں کہ چناب میں پانی آ گیا، چناب نے مختلف علاقے سیالکوٹ، نارووال کو ڈبونا شروع کیا پھرپانی وزیر آباد، پنڈی بھٹیاں، سے ہوتا ہوا آگے چلا گیا، علاقے ڈوبتے چلے گئے، لاہور راوی میں سیلابی ریلا آیا، وہ علاقے ڈوبے جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے، آج بھی اگر موہلنوال یا ملحقہ بستیوں‌میں جائیں تو دس دس فٹ پانی موجود ہے، کشتیوں کے ذریعے آج بھی وہاں ریسکیو جاری ہے، بدقسمتی یہ ہے کہ پانی مزید آ رہا ،راوی اور چناب کے پانی سے آگے علاقے ڈوب چکے ہیں، بڑے گاؤں زیر آب آ چکے ہیں، دویائے ستلج کو دیکھیں، گنڈا پورا سے پانی داخل ہوا تو پاکپتن بہاولنگر میلسی ہر علاقے کو ڈبو دیا، جلال پور پیر والا میں تینوں دریاؤں کا پانی اکٹھا ہوا اور وہاں خوفناک تباہی ہوئی ہے، 25 کلو میٹر تک جلال پور پیر والا میں ہم نے کشتی پر سفر کیا،ہزاروں گاؤں، لاکھوں لوگ ہیں جو پانی میں گھرے ہوئے ہیں، حکومت کو بار بار آگاہ کر رہے تھے کہ وسائل کو بروئے کار لائیں یہ پانی اب آگے بڑھ رہا ہے خان پور کا 80 فیصد علاقہ ڈوب چکا ہے، اب پانی سندھ میں داخل ہونا ہے، مرکزی مسلم لیگ لیگ کی ہر ضلع میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں، پیر امیڈیکل سٹاف متعلقہ علاقوں میں موجود ہے، خیبر پختونخوا میں ہم کوئی جان نہیں بچا سکے،وہ لمحوں کی تباہی تھی، بستیوں کے نام ونشان مٹ گئے، جن لوگوں کو وہاں ریسکیو کیا ان کو ادویات دیں، گھر صاف کئے، کھانا دیا، پنجاب میں اب انسانی جانوں کے ضیاع کا بہت بڑا خدشہ ہے،خیبر پختونخوا ،گلگت میں بحالی کا عمل شروع ہو چکا ہے،متاثرین کے گھر بنائیں گے ،روزگار کے لئے مدد کریں گے، یہ سانحہ حکومتوں کے بس کا نہیں،لیکن جو کام کر سکتے تھے اس میں غفلت کیوں ہے، جلال پور میں 11 کشتیاں ہیں جن میں سے 9 کے انجن خراب ہیں، ڈیڑھ لاکھ بندہ وہاں پھنسا ہوا اور آپ فوٹو شوٹ کروا رہے ہیں، ایک چنے کا پیکٹ دے کر کہتے ہیں کہ دس دن کی خوراک ہے، خدارا آگے بڑھیئے جانیں بچائیے، اخلاص نیت کے ساتھ کام کیجیے، ڈوبنے والے لاکھوں، بچانے والے کروڑوں ہم ایک قوم بن کر متحد کو سب کر سکتے ہیں

مرکزی کسان لیگ کے صدر ذوالفقار اولکھ کا کہنا تھا کہ جو حالات ہیں حکومت اگر پانچ دس فیصد بھی کام کرتی تو یہ حالات نہ بنتے،کسان تو سیلاب میں مر چکا، اللہ یہ دن کسی کو نہ دکھائے، فصلیں سب بہہ گئی ہیں،ٹربائینیں بہہ گئی ہیں،ٹریکٹر بہہ گئے،18، 18 فٹ زمین کی سطح پر پانی آیا ہے، 25 اگست سے 5 ستمبر تک حکومت نے پوچھا ہی نہیں، صرف فوٹو سیشن جہاں تک گاڑیاں‌جاتی تھیں وہاں تک کیا گیا،کسانوں کی پچھلی فصل تیار تھی تباہ ہو گئی،یہ بارشوں کا پانی ہے لیکن پاکستانی بارشوں کا نہیں، منصوبہ بندی کے تحت یہ سب کچھ ہوا، بھارت نے آبی جارحیت کی،بھارت نے اپنی جنگ ہارنے کا بدلہ پاکستان سے لیا ہے، شہری آبادیاں محفوظ ہیں لیکن کھیتوں میں میڈیا بھی نہیں، ہماری چیخیں سننے والا کوئی نہیں، مرکزی مسلم لیگ کے کارکنان نے ہمیں سنبھالا ہے،ڈی سی نارووال ثابت کریں کوئی سرکاری کشتی نہیں گئی، کوئی امداد نہیں دی گئی،اب ہم سے بجلی کے بل مانگے جا رہے ہیں، ہم کس چیز کے بل دیں، سب کچھ ڈوب گیا،بجلی ہم چلا نہیں سکے، مطالبہ کرتے ہیں کہ زمیندار کو ریسکیو کریں،بجلی کے بل معاف کیے جائیں،زرعی قرض فوری طور پر معطل ،معاف کئے جائیں، ہمارا سب کچھ بہہ گیا، ہم کیسے قرضے دیں، کسان ٹیکس دیتا ہے، سب کچھ کرتا ہے آج ہمارا کچھ نہیں بچا تو ہماری کوئی نہیں سن رہا،آبیانہ،کسان پر جگا ٹیکس یہ اب ختم کیا جائے،گندم کسان کے پاس تھی تو سستی تھی اب مہنگی ہو گئی اب قانون اور ضابطے ان کے کہاں گئے،جنگ صرف کسانوں کی نہیں تھی، وقار پورے وطن کا تھا،کسانوں پر بوجھ نہ ڈالا جائے،شہری آبادیاں محفوظ لیکن کسان کا کھیت غیر محفوظ ہے، حکومت کو فوری طور پر قومی سلامتی کا اجلاس بلانا چاہئے،بھارت نے ڈیموں سے پانی چھوڑا ہمیں برباد کیا، حکومت کو واضح لائحہ عمل دینا چاہئے،ہمارے مطالبے نہ مانے گئے تو ہم بھر پور احتجاج کریں گے، کسان سڑکوں پر نکلیں گے،حکومت کو کہنا چاہتا ہوں کہ کسان کو کھاد، بیچ دیں، 25 اضلاع پنجاب کے ڈوبے ہیں کسان کو ریلیف ملنا چاہئے، آبیانہ،بجلی، زرعی ٹیکس معاف ہونے چاہئے.اگر حکومت نے نوٹس نہ لیا تو معیشت بھی ڈوبتی رہے گی،مطالبے پورے نہ ہوئے تو پھر دما دم مست قلندر ہو گا، ہمارا گھر کیسے چلے گا

مرکزی مسلم لیگ لاہور کے سیکرٹری جنرل مزمل اقبال ہاشمی کا کہنا تھا کہ اس وقت جو ملک کی کیفیت ہے اس کی بنیادی وجوہات کو تلاش کرنا چاہئے، معرکہ حق میں بھارت کی ناکامی کا بدلہ انہوں نے پاکستانی قوم سے لینے کا فیصلہ کیا اور پاکستان کے سب سے بڑے ڈوبے کو ڈبونے کا منصوبہ بنایا، سندھ طاس معاہدہ معطل کیا اور ڈیٹا بھی پاکستان کے ساتھ شیئر نہیں کیا، پاکستان اور بھارت میں بارشوں کا ڈیٹا دونوں حکومتوں کے پاس تھا لیکن بھارت نے ڈیٹا نہیں دیا اور پانی چھوڑ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 25 اضلاع ڈوب گئے ،پاکستان کو قومی سلامتی کا اجلاس بلانا چاہے، بھارت نے بڑا آبی حملہ کیا،تین ہفتے ہونے والے ہیں، مسلسل راوی،ستلج ،چناب میں پانی آ رہا ہے،ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کمزوری نہ دکھائے اور مودی پر بھارتی آبی حملے کا مقدمہ درج کیا جائے،ہم کہتے ہیں کہ یہ پاکستان کی عوام کا مطالبہ ہے، پاکستان کے دشمنوں کوتگڑا جواب دینا چاہئے، جن لوگوں نے ماضی میں غلطیاں کیں،جماعت علی شاہ نے غداری کی،بھارت کو ڈیم بنانے کا موقع دیاایسے لوگوں کا احتساب ہونا چاہیے ،نقصانات کو مکمل جائزہ لیا جائے،مرکزی مسلم لیگ نقصانات پر وائیٹ پیپر جاری کرے گی، جس جس کا بھی نقصان ہوا سب کا ازالہ کیا جائے، موہلنوال کا علاقہ اور گردونواح کی بستیاں یہ مزدور،محنت کش تھے، انکے نقصانات کا ازالہ حکومت کی ذمہ داری ہے،پاکستان میں اناج، گندم کا جو بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس پر فوری قابو پایا جائے، جھوٹ کی بجائے حقائق قوم کے سامنے رکھنے چاہئے، اس وقت ہندوستان حملہ‌آور ہے اور پوری پاکستانی قوم کو تیار رہنا چاہے، مرکزی مسلم لیگ تحریک شروع کرنے جا رہی ہے، ہم عوام کو ساتھ لے کر دشمنوں کو ایک مضبوط اور واضح پیغام دیں گے،ہم عوام میں شعور پیدا کریں گے کہ دشمن کیا کر رہا ہے، حکومتی جو غفلت کر رہی ہے ہم مجبور کریں گے کہ پاکستانی قوم کی آواز سنے ،نقصانات کاازالہ کیا جائے،اور آئندہ کے لئے سدباب کیا جائے، دریاؤں کی گزرگاہوں کو کھلا کیا جائے، ہم پورا منصوبہ حکومت کے سامنے رکھیں گے،موسمیاتی تبدیلی سے پورا خطہ متاثر ہے،ہمیں جب پانی کی ضرورت ہے تو بھارت نے دریاؤں کو بند کر دیا، بھارت پانی اکٹھا کرتا رہا، جب بارشیں ہوئیں تو مون سون کے دنوں میں بھارت نے پانی چھوڑا، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت نے پانی چھوڑ کر آبی جارحیت کی ہے، پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر کے لئے غلط فہمیوں کو ختم کرنا چاہئے، جو سندھ یا دریائے کابل پر بن سکتے ہیں ان ڈیموں کو بنانا چاہئے،تا کہ بارشوں کے پانی کو کنٹرول کیا جا سکے،جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو گا بھارت آبی جارحیت کرتا رہے گا،اس وقت لوگوں کی زندگیاں بچانا اہم ہے، قومی سطح پر کام کرنے والے رفاہی اداروں کو کام کرنے کی مکمل اجازت ہونی چاہئے،

Shares: