ایک استاد کی ویڈیو دیکھی جو اپنے طلباء کو بتا رہا تھا کہ سخت گرمی میں چلتے مجھے ایک گھر کے ساتھ پیڑ نظر آیا. سوچا اس کے نیچے کچھ ٹھنڈک لوں پسینہ خشک کروں. میں وہاں کھڑا ہی تھا کہ اوپری منزل کی کھڑکی کھلی. ایک شخص نے باہر مجھے دیکھا میں نے اسے دیکھا. اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا پانی پیو گے.؟ میں نے ہاں میں سر ہلا دیا.

وہ شخص کھڑکی بند کر کے چلا گیا. میں نے سوچا کتنا اچھا انسان ہے. اس گرمی میں اسے دوسروں کا احساس ہے. میں انتظار کرنے لگا دو منٹ چار منٹ سات منٹ اور پھر میں نے دل میں کہا کتنا گھٹیا انسان ہے. مجھے آسرا دے کر خود سو گیا. اچانک گھر کا دروازہ کھلا اور وہ شخص شرمندہ مسکراہٹ کے ساتھ ایک جگ گلاس اٹھائے باہر نکلا. کہنے لگا میں نے کہا کیا سادہ پانی پلاوں شکنجبین ہی پلا دیتا ہوں. اس لئے کچھ وقت لگا.

استاد کہنے لگے مجھے پھر اپنی سوچ پر شرمندگی ہوئی. کہ کتنا اچھا بندہ ہے. اس دور میں بھی اجنبیوں کا اتنا اکرام کر رہا ہے. اس نے مجھے گلاس دیا میں نے گھونٹ بھرا وہ شربت پھیکا تھا. میں نے پھر سوچا کتنا بے وقوف انسان ہے. شکنجبین بھی کوئی پھیکا بناتا ہے. میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے جیب سے پڑیا نکالی اور کہا مجھے پتہ نہیں تھا آپ میٹھا پیتے ہیں یا نہیں اور کتنا میٹھا.؟ اس لئے یہ چینی الگ سے لایا ہوں.

کہنے لگے مجھے ایک بار پھر اپنی سوچ بدلنی پڑی. دوستو ہم وہی ہوتے ہیں جو ہم سوچ رہے ہوتے ہیں. یہ دنیا اور ہمارے آس پاس اس کے لوگ و واقعات کی اچھائی برائی ہمارا دماغ طے کر رہا ہوتا ہے. دماغ کا ایک مسئلہ ہے یہ بہت جلد باز واقع ہوا ہے. اس لئے جلد بازی کے ہمارے فیصلے ہمیں ہی شرمندہ کراتے ہیں. بار بار شرمندہ کرتے ہیں.

Shares: