پاکستان میں وقتا فوقتا ریاستی سلامتی کے اداروں اور تنصیبات پر حملے ہوتے رہے ہیں اس کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ بعض کالعدم تنظیمیں اور عسکریت پسند گروہ ریاستی اداروں کو ٹارگٹ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ انہیں اپنی نظریاتی یا ریاستی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ یہ حملے زیادہ تر ایسے گروہوں کی طرف سے ہوتے ہیں جو پاکستان کے آئینی اور ریاستی ڈھانچے کو تسلیم نہیں کرتے۔ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن اور خطے میں اس کے کردار کی وجہ سے بعض بیرونی قوتیں جس میں بھارت بھی شامل ہے ایسی سرگرمیوں کو ہوا دیتی ہیں تا کے ملک میں عدم استحکام رہے۔ افغانستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کی صورتحال بھی اس میں اثر انداز ہوتی ہے۔ معاشی بحران سیاسی عدم استحکام اور گورننس کے مسائل بھی شدت پسندی کو تقویت دیتے ہیں۔ جب ریاست کے اندرونی مسائل بڑھتے ہیں تو دہشت گرد گروہوں کو اپنے نیٹ ورک پھیلانے کے لیے ماحول سازگار مل جاتا ہے۔ آج کے دور میں دشمن صرف ہتھیاروں سے نہیں لڑتا بلکہ پروپیگنڈا، سوشل میڈیا مہم اور اداروں پر حملے کروا کے ریاست کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کیونکہ یہ ریاستی ادارے ملک کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے ہیں۔ اگر عوام کے ذہن میں ان اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جائے تو پورے نظام پر اعتماد کمزور ہو جاتا ہے۔
حال ہی میں ریاستی فورسز نے افغان سرحد کے نزدیک چند خفیہ ٹھکانوں پر کاروائیاں کیں خصوصا باجوڑ، جنوبی وزیرستان اور دیگر اضلاع میں شدت پسند ہلاک ہوئے ہمارے فوجی جوان بھی شہید ہوئے۔ کچھ اسی قسم کی صورتحال بلوچستان میں دیکھی جا رہی ہے۔ جعفر ایکسپریس واقعہ بھی ہوا جہاں شدت پسندوں نے مسافروں کو یرغمال بھی بنایا اور شہید بھی کیا۔ فوجی اور سلامتی اداروں کو اس لیے نشانہ بناتے ہیں کہ وہ ریاست کی نمائندگی کرتے ہیں۔ شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، باجوڑ، مہمند، خیبر یہاں سرحدی قربت، پہاڑی جغرافیہ، افغان طالبان کی حمایت اور مقامی نیٹ ورکس کی موجودگی سہولت دیتی ہے۔ بلوچستان علیحدگی پسند گروہ مکران، پنجگور، کیچ، اور کوئٹہ کے اطراف میں سکیورٹی فورسز پر حملے کرتے ہیں۔ سرحد پر حملے صرف افغانستان سے داخل ہو کر خودکش بم دھماکے، چوکیاں، قافلے، بکتر بند گاڑیاں ٹارگیٹڈ حملے کرتے ہیں۔ پروپیگنڈا، سوشل میڈیا وار، عوامی اعتماد کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان کو اپنے سرحدی کنٹرول کو مضبوط کرنا ہوگا۔ ٹیکنالوجی بیس، انٹیلیجنس مانیٹر کا بہتر استعمال کرنا ہوگا۔ فوج، پولیس اور سول انٹیلیجنس اداروں کے درمیان فوری معلومات کا تبادلہ کرنا ہوگا۔ سیاسی شمولیت قبائلی اضلاع میں عوامی نمائندگی بڑھانا ہوگی۔ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں خصوصی اکنامک، تعلیم، روزگار، اور صحت پر توجہ دینا ہوگی۔ جو عسکریت پسند ہتھیار ڈالنے کو تیار ہوں ان کی معافی اور بھاری پروگرام جیسا کہ سری لنکا نے تامل باغیوں کے بعد کیا کرنا ہوگا۔ علماء اور سول سوسائٹی کو شامل کر کے شدت پسندانہ بیانیے کا علمی و مذہبی توڑ کرنا ہوگا۔ دشمن کے پروپیگنڈا مہم کا جواب موثر اور عوامی رابطہ مہم سے دینا ہوگا۔ سیاسی قوتوں کو قومی سلامتی کے معاملات پر متفق کرنا ہوگا تاکہ شدت پسند درمیان کی خالی جگہ استعمال نہ کر سکیں۔ سفارتی ذرائع سے طالبان حکومت کو ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ چین، ایران، وسطی ایشیائی ریاستوں اور حتی کہ امریکہ کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف تعاون حاصل کرنا ہوگا۔ پاکستان کے سلامتی اداروں پر حملے زیادہ تر کے پی کے (قبائلی اضلاع) اور بلوچستان میں ہوتے ہیں جہاں جغرافیائی سیاسی اور سماجی محرکات شدت پسندوں کو سہولت دیتے ہیں اس کے لیے جامع حکمت عملی ضروری ہے۔ جبکہ اس میں مضبوط سفارتی پالیسی شامل ہونی چاہیے۔